مقابلے کا اصل میدان

دنیا کی15بڑی کمپنیوں کے سربراہان کا تعلق ہندوستان سے ہے(ان کمپنیوں میں گوگل، ایڈوب، مائکرو سافٹ ،موٹرولا نیٹ ایپ، نوکیا، پیپسی کو وغیرہ شامل ہیں)یہ15ہندوستانی ہر سال کم و بیش500ارب ڈالر کا انضمام و انصرام کرتے ہیں جبکہ ہندوستان کی سالانہ برآمدات تقریباً 400 ارب امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں اسی لئے مشہور و معروف ’’ٹائم میگزین‘‘ نے ان چیف ایگزیکٹو آفیسرز کو ’’انڈیا کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ‘‘قرار دیا۔
یہی نہیں بلکہ امریکہ کی امیگریشن لینے والوں پر لکھی گئی مستند ترین کتابImmigrant, Inc.کے مطابق امریکہ کی500بڑی کمپنیوں کے سربراہان میں امریکیوں کے بعد سب سے بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہے جس کی وجہ مصنف (رچرڑہرمن) کے بقول ’’انگریزی میں ان کی مہارت اور جدید تعلیم ہے ،جو وہ ہندوستان سے اپنے ساتھ لاتے ہیں‘‘ انگریزی اور جدید تعلیم سے یاد آیا،کیا انہی دو باتوں کی تلقین سرسید احمد خان کے کم و بیش 100برس پہلے برصغیر کے مسلمانوں کو اس وارننگ کے ساتھ نہیں کی تھی کہ انگریزی اور جدید تعلیم کے زور پر ہندو مسلمانوں پر سبقت لے جاتے ہیں؟انہوں نے ’’سائنٹیفک سوسائٹی،وکٹوریہ سکول، علی گڑھ گزٹ اور انجمن ترقی مسلمانانِ ہند ‘‘ کے ذریعے مسلمانوں میں انگریزی اور جدید تعلیم کو فروغ دینے کی بہت کوشش کی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
انگریزی اور جدید تعلیم کے خلاف ہمارا حال یہ تھا کہ1875 ء کے ہندوستان میں مسلمان اورہندو گریجوایٹس کی تعداد20کے مقابلے میں850 تھی۔ سرسید کو کافر قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور ’’محمڈن اینگلو اوریئنٹل سکول علی گڑھ‘‘کی بنیاد رکھی جسے دو سال بعد ہی(1877) میں کالج کا درجہ مل گیااور اس کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی کے ساتھ کر دیا گیا۔اس کالج کا نام جس دانشمندی سے رکھاگیا اسی’’وژن‘‘ سے اس کے قواعد کار بھی بنائے گئے اورپرنسپل کے علاوہ کم ازکم دویورپی پروفیسروں کو رکھے جانے کی شرط عائد کی گئی (سکول کا ہیڈماسٹر بھی کوئی یورپی ہی بن سکتا تھا)یہی وجہ تھی کالج کا افتتاح وائسرے ہند نے کیا جس سے اس کی ساکھ اور مالی حالت مستحکم ہوئی ورنہ ہر سال تعلیمی وظائف پر اٹھنے والی خطیر رقم کا بندوبست کیسے ہوتا اور بعدازاں اسے پہلی مسلم یونیورسٹی کا درجہ کیونکر ملتا؟یہی وہ ادارہ ہے جو علی گڑھ یونیورسٹی کے نام سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی عزت وتوقیر کا باعث بنا۔
تحریک پاکستان کے قائدین کی واضح اکثریت علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹس پر مشتمل تھی لیکن پاکستان بننے کے75سال بعد بھی انگریزی اور جدید تعلیم سے ہماری وابستگی کا عالم کیا ہے،یہ سب جانتے ہیں۔ایک طرف ایم اے انگریزی کی کلاس بھی اردو میں لی جاتی ہے اور دوسری جانب وہ چاند ابھی ٹھیک سے نظر بھی نہیں آتا جس پر دنیا کو قدم رکھے ہوئے بھی نصف صدی بیت گئی؟
شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ دنیا کی اعلیٰ ترین400 یونیورسٹیوں میں3انڈیا کی ہیں اورایک بھی پاکستان کی نہیں۔ یقین نہ آئے تو’’ٹائم ہائر ایجوکیشن (جو تعلیمی اداروں کی رینکنگ کرنے میں بین الاقوامی اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے)کی مرتب کر دہ فہرست انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔دوسری جنگ عظیم میں جس دنیا کو جاپان جدید ترین ہتھیاروں سے لیس مضبوط ترین آرمی کے زور پر بھی نکیل نہ ڈال سکا‘ وہی دنیا اسی جاپان کے ہاتھوں جی ڈی پی‘ جی این پی‘ فی کس آمدن اور انسانی ترقی کے اعداد شمار سے ’’ہنڈز اپ‘‘ ہوگئی؟ اور اس حقیقت پر بھی دھیان نہیں دیتے کہ امریکہ کے ’’سپر پاور‘‘ ہونے کی بنیادی وجہ وہ سیاسی نظام ہے جس نے 50 سے زائد الگ الگ دساتیر کی حامل ریاستوں کو بھی پوری رضا و رغبت سے ایک مضبوط ترین وفاق میں باندھ کر قومی یکجہتی کا بے مثال نمونہ پیش کیا ہے‘ اس بہترین سیاسی نظام کی بنیاد بھی بہترین تعلیمی نظام ہے‘ کون نہیں جانتا کہ دنیا کی اعلیٰ ترین 22 یونیورسٹیوں میں سے 16 امریکہ کی ہیں؟کاش ہم ’’طرز کہن‘‘ پر اڑنے کے بجائے ’’آئین نو‘‘ کو اپنائیں تو کچھ عجب نہیں کہ ہم ہندوستان تو کیا ساری دنیا سے آگے نکل جائیں۔ آئیے سب مل کر یہ دعا مانگیں کہ
رچی بسی مری مٹی میں وہ محبت ہو
کہ خار کی بھی یہاں پھول سی طبیعت ہو
ہر ایک دل کو کرے علم کی ندی سیراب
ہر ایک ذہن کی گاگر ہو روشنی سے بھری
بصارتوں میں ہو آباد آگہی کا جمال
بصیرتوں میں بسیرا کرے قلم کی پری
ہر ایک خواب ہو فکر و نظر کا گہوارا
ہر اک خیال ہو تہذیب و فن کا شہ پارہ
٭…٭…٭