ڈاکٹر ناظر حسن زیدی : بے مثال حافظے کا مالک
میں نے پورے ساٹھ سال مختلف تعلیمی اداروں میں اردو پڑھائی ہے۔ اس دوران درجنوں رفقائے کار کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان میں ہرطرح کے اساتذہ تھے۔ علمی طور پر بڑے قد و قامت کے حامل، اعلیٰ درجے کے حافظے کے مالک، علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے، بہت اچھے محقق اور اس کے برعکس ایسے افراد بھی جو تدریس کے پیشے سے اس لیے منسلک ہو گئے تھے کہ کہیں اور نہ جا سکے۔ جن رفقا کے ساتھ مجھے سالہا سال کام کرنے کا موقع ملا ہے ان میں سے بعض حضرات کے بارے میں قارئین تک اپنی یادیں اپنے کالم کے ذریعے پہنچاتا رہا ہوں مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ بہت سے منفرد رفقائے کار کا ذکر کسی نہ کسی وجہ سے نہیں آ سکا۔ مجھے اپنے ان رفقا میں سے ڈاکٹر ناظر حسن زیدی کبھی کبھی بہت یاد آتے ہیں۔ زیدی صاحب یو پی کے مہاجر تھے۔ بدایوں کے کسی گاؤں کے رہنے والے تھے (سالِ ولادت 1917ء - وفات 2006ء امریکا) درازقد، بہت متناسب جسم، سانولا رنگ، چہرے کے خط و خال بہت موزوں، انگشت بھر ریش، ملازمت کے تقریباً سارے عرصے میں اپنی جائے سکونت بادامی باغ سے سائیکل پر آتے جاتے تھے۔ سادہ مزاج اتنے کہ اورینٹل کالج سے واپسی پر گھر کے لیے سامانِ خور و نوش سائیکل کے کیریر پر لٹکا کر دھیمی رفتار سے پیڈل چلاتے ہوئے بڑے اطمینان سے گھر پہنچ جاتے تھے۔ یو پی کے شرفا کا لباس زیبِ تن یعنی تنگ مہری کا پاجامہ، تنگ کرتا اور اس پر شیروانی۔ خواہ کوئی بھی موسم ہو اس میں تبدیلی نہیں آتی تھی۔
ڈاکٹر زیدی دوسری عالمی جنگ کے دوران فوج میں بھرتی ہو کر مشرقِ بعید کے ممالک میں نان کمیشنڈ آفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1946ء میں جنگ کے خاتمے پر اس ملازمت سے فارغ ہو گئے۔ تقسیم ملک کے بعد لاہور آ گئے۔ پنجاب اسمبلی میں مترجم کی حیثیت سے حکیم احمد شجاع وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ مترجم کے طور پر اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے لیکن چونکہ معمولی درجے کی ملازمت تھی اس لیے ایم اے (فارسی) اور ایم اے (اردو) کے امتحانات اعزاز کے ساتھ پاس کرکے لیکچرار منتخب ہوئے اور چار پانچ مختلف گورنمنٹ کالجوں میں چند سال کام کیا۔ اس دوران اردو میں پی ایچ ڈی کر لی اور فروری 1963ء میں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔ میں اس شعبے میں ان کے چھے ماہ بعد آیا۔ چونکہ یونیورسٹی کی ملازمت تک پہنچتے پہنچتے ان کی عمر چھیالیس سال ہو چکی تھی اس لیے سبکدوشی زیادہ دور نہیں تھی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ 1973ء میں بھٹو حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے کم کرکے ستاون کر دی۔ جو لوگ اس کا فوری نشانہ بنے ان میں زیدی صاحب بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اچانک تخفیف کرنے سے ملازمین پر قیامت گزر گئی اور سمجھ میں نہیں آیا کہ یک دم فارغ ہونے کے بعد کیا کریں۔ ڈاکٹر ناظر حسن زیدی سراپا مشرقی وضع قطع اور مزاج کے حامل تھے لیکن مجبوراً انھیں اپنے بیٹوں کے پاس امریکا جانا پڑا۔ باقی عمر انھوں نے وہیں گزاری مگر وہاں ان کا دل نہیں لگتا تھا اور جب بھی موقع ملتا تو پاکستان آ جاتے اور چند مہینے گزار کر مجبوراً واپس چلے جاتے۔
ڈاکٹر زیدی فارسی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو تو ان کے گھر کی زبان تھی بقول میر
ع اوّل تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
انھیں اردو اور فارسی کے اتنے شعر یاد تھے کہ اس معاملے میں ویسا کوئی شخص کبھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ ڈاکٹر زیدی مجموعی طور پر منکسر المزاج تھے لیکن ایک دفعہ میں نے ان سے اصرار کرکے پوچھا کہ انھیں کتنے شعر یاد ہوں گے تو فرمایا کہ تقریباً پچاس ہزار۔ مجھے بھی بہت شعر یاد ہوا کرتے تھے لیکن میرا ان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر وہ ایک لاکھ اشعار یاد ہونے کا بھی دعویٰ کرتے تو قرینِ قیاس ہوتا۔ یاد رہے کہ شعر یاد کرنے سے یاد نہیں ہوتے۔ موزونیِ شعر قدرت کا عطیہ ہے اور بعض لوگوں کا حافظہ شعر کے معاملے میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک دو بار پڑھنے سے شعر ان کے حافظے سے چمٹ جاتا ہے۔ فارسی کی مشہور کتاب ’چہار مقالہ‘ کے مصنف نظامی عروضی سمرقندی نے لکھا ہے کہ شاعر کو کم از کم تیس ہزار شعر یاد ہونے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جن کو ہزار ہا شعر یاد تھے۔ ڈاکٹر ناظر حسن زیدی پورے پورے مرثیے، قصیدے اور مثنویوں کے مکمل ابواب سنا دیتے تھے۔ میں نے ایسا بے مثال حافظہ کسی اور کا نہیں دیکھا۔ انھیں میر امن کی ’باغ و بہار‘ اور محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ کے پورے پورے پیرے یاد تھے۔ میری ان سے بہت بنتی تھی۔ وہ پورا شعر پڑھنے کی بجائے ایک ٹکڑا سنا دیتے اور میں عموماً پورا شعر پڑھ دیتا تو بہت خوش ہوتے۔ ایک دفعہ ہم طلبہ و طالبات کو ایک روزہ تفریحی دورے پر لاہور سے باہر کہیں لے گئے۔ وہاں سجاد باقر رضوی صاحب نے دست شناسی کا مظاہرہ شروع کیا چنانچہ بہت سی طالبات قسمت کا حال جاننے کے لیے ان کے اردگرد جمع ہو گئیں۔ میں اور ناظر صاحب قریب ہی کھڑے تھے۔ ناظر صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا: ’آندھی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘ میں سمجھ گیا کہ وہ نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس کا آخری شعر ہے:
نظیر آندھی میں سنتے تھے کہ اکثر دیو ہوتے ہیں
میاں ہم کو تو لے جاتی ہیں پریاں گھیر آندھی میں
شعبۂ اردو کے ایک کلرک پاس ہی کھڑے تھے۔ کہنے لگے، ’کیا مطلب؟‘ ناظر صاحب نے فرمایا ،’بھئی مطلب سمجھنے کے لیے بہت موٹی کتاب یاد کرنی پڑتی ہے‘۔ ڈاکٹر ناظر حسن زیدی نے بہت متفرق نویسی کی۔ بہت سی معروف کتابوں کو ازسرِ نو مرتب کیا اور ان پر مقدمات لکھے۔ حسبِ فرمائش کچھ تحقیق و تنقید پر بھی طبع آزمائی کی لیکن انھوں نے بعض کتابوں کے جو تراجم کیے ہیں وہ بہت اعلیٰ ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے انگریزی کتاب ’قلوپطرہ‘ (از آرتھر ویگل) کا بہت رواں اور دلکش ترجمہ کیا ہے جو ترجمے سے زیادہ تخلیقی کارنامہ معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک اہم کام ’خلاصۃ التواریخ‘ از سبحان رائے بٹالوی (فارسی) کا ترجمہ ہے۔ اصل کتاب خاصی دقیق فارسی میں ہے مگر ڈاکٹر زیدی نے اس پر بہت محنت کی ہے چنانچہ ان کا ترجمہ اردو کے اسلوب سے ہم آہنگ ہے اور اس میں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ اس قسم کے بہت سے دوسرے کام بھی ان کی یادگار ہیں۔ ان پر 1989ء میں ایم اے (اردو) کا ایک مقالہ ایک بچی فرح دیبا نے لکھا۔ یہ اچھا تعارفی مقالہ ہے۔ اس وقت ناظر حسن زیدی حیات تھے۔ ضرورت ہے کہ ان پر کوئی طالب علم محنت سے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی کام کرے۔ ڈاکٹر ناظر حسن زیدی تدریس سے زیادہ ترجمے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں تحقیقی ادارے اوّل تو موجود ہی نہیں اور اگر کہیں ان کا وجود ہے بھی تو وہاں سنجیدگی سے کام نہیں ہوتا یا ترجمہ کرنے والوں میں اتنی اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ قابلِ اعتبار ترجمہ کر سکیں۔ ڈاکٹر زیدی جیسے لوگ اس کام کے لیے موزوں ہوتے ہیں لیکن ہم ’موزوں کام کے لیے موزوں آدمی‘ کے قائل نہیں ہیں۔ کاش! اے کاش!! ایسا ہو سکے۔