پاکستان کی آئی ایم ایف کو یقین دہانی اور اس کا ممکنہ رد عمل
حکومت پاکستان نے انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پیر سے پہلے بجلی اور پٹرول پر سبسڈی کم کی جائے گی۔ دوحہ (قطر) میں پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے کہاگیا ہے کہ سبسڈی ایک دم نہیں بلکہ قسط وار ختم ہوگی۔ بجلی بنانے والے کارخانوں کی نجکاری ہوگی، حکومتی ادارے بیچنے کا شیڈول بھی دے دیا گیا ہے۔ پالیسی ریٹ میں مزید اضافے پر مہلت طلب کی گئی ہے۔
پاکستان اس وقت جس خوفناک معاشی صورتحال سے دوچارہے اس میں اگر چہ ہمارے حکمرانوں ہی کی غلط پالیسیوںاور نقص طرز حکمرانی کا عمل دخل ہے لیکن اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہاہے۔ اب موجودہ گرداب سے نکلنے کے لیے حکومت کے لیے جو واحد اور فوری آپشن ہے وہ آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول ہے، آئی ایم ایف نے اگر طے شدہ معاہدے کے مطابق قرضے کی قسط پاکستان کو اداکرنے پر آمادگی ظاہر کردی تو اسکے نتیجے میں دوسرے مالیاتی ادارے اور ممالک بھی پاکستان کو قرض دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ چنانچہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس کی شرائط ماننے کے لیے طوعاً وکرہا ً تیارہوگئی ہے حالانکہ وزیراعظم محمد شہباز شریف ، موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار واضح طورپر کہہ چکے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاجائیگا لیکن اب حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ بجلی اور پٹرول پر سبسڈی کم کی جائیگی، گویا انکے نرخ بڑھا دئیے جائیں گے، البتہ یہ اضافہ یک دم کی بجائے قسط وار کیاجائیگا، گویا عوام الناس کو یک دم مارنے کے بجائے قسطوں میں ماراجائیگا۔ حکومت اور اسکے اتحادی اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کی صورت میں مہنگائی کا جونیا ریلا آئیگااسکے نتیجے میں حکومت کو شدید عوامی رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑیگا ۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ جس سے حکومتی ریونیو بھی بڑھ سکے اور عام آدمی بھی متاثرنہ ہو۔ عوامی غیض و غضب سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے بصورت دیگر مہنگائی کے عذاب میں مبتلاعوام مزید مالی بوجھ برداشت نہ کرسکیں گے اور اس کا ملبہ وہ حکومت سے نفرت کی صورت میں اس پر ڈالیں گے جس کا حکومت کو سیاسی طورپر بہت نقصان ہوگا، کیاحکومت اس کے لیے بھی تیارہے؟