حضرت خواجہ صالح محمد اویسیؒ کی دینی خدمات
خاندان اویسیہ کے روشن چراغ‘ پیکر مہروفا‘حلقہ بگوش حضرت خواجہ اویس قرنیؓ اورحضرت خواجہ پیر حافظ عبدالخالق اویسیؒ چشم و چراغ حضرت حاجی محمد یعقوب اویسیؒ کے تصرفات کے مظہر و عظیم روحانی پیشوا سلطان الصالحین حضرت قبلہ خواجہ صالح محمد اویسیؒ عابد زاہد متقی اور ولی کامل تھے۔
اللہ نے اپنے بندوں کو رشدوہدایت کی راہ دکھانے کیلئے حضور اکرمؐ کے بعد یہ سلسلہ اپنے لوگوں کے ذریعے جاری و ساری رکھا جنہیں ہم غوث قطب ابدالی اور ولی کے نام سے یاد کرتے ہیں ایسے ہی جیّد اور پاکیزہ اولیائے کرام میں سے حضرت خواجہ صالح محمداویسی ہوئے ہیں ۔ آپ زاہدو تقویٰ کا مجسمہ تھے۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار حضرت حاجی محمد یعقوب اویسیؒ کے سایہ عاطفت میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ کی تعلیم و تربیت پر کافی التفات اور توجہ دی گئی ۔ آپ کو جودت طبع اپنے پدر بزرگوار سے ورثہ میں ملی۔ آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔ آپ وسیع النظر اور وسیع المطالعہ تھے۔ قرآن‘ حدیث و فقہ پر مکمل عبور تھا ۔ آپ کی تعلیم قرآن حکیم اور شریعت پر مبنی تھی ۔ علم حاصل کرنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ علم و فضل کے آفتاب و مہتاب تھے۔ بڑے بڑے عالم انتہائی پیچیدہ مسائل لاتے آپ مشکل سے مشکل علمی مسائل کی گھتیاں اس طرح سلجھاتے کہ ان میں سے اکثر علماء آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو جائے ۔ لوگ آپ کی صحبت میں راہ راست پر آجاتے تھے ۔جو لوگ آپ کی صحبت میں رہے اتباع شریعت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ فن شاعری سے ہی آپ کو کمال شوق تھا نعتیہ شعر اکثر کہتے اور سنتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے علم طب کی جانب بھی توجہ فرمائی ۔ قدرت نے جو جوہر قابلیت اور لیاقت آپ کو عطا فرمائی تھی اسکے اعتبار سے آپ خود ہی اپنی نظیر تھے۔ ذہن و زکاوت کا یہ حال تھا کہ جس مسئلہ کی طرف توجہ فرماتے وہ بآسانی حل ہو جاتا ۔ آپ کی علمی لیاقت مستعنی عن الوصف تھی۔ آپ تصوف‘ فقہ اور حدیث میں اپنی نظیر آپ تھے۔ آپ کو ظاہری و باطنی علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی بلکہ دونوں علوم پر اکمل کا درجہ رکھتے تھے یعنی آپ ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ و پیراستہ تھے اخلاق و مروت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ آپ انتالیس سال کی عمر میں سجادگی سے فیضیاب ہوئے اپنے والد بزرگوار کی محبت میں علوم ظاہری و باطنی سے سرفراز ہوئے۔ سجادگی کی دستار سلطان الصالحین حضرت محمد سلطان بالا دین ؒ نے بندھائی۔ سلطان الصالحین حضرت قبلہ صالح محمد اویسیؒ نصف صدی 1994 تک مسند سجادگی پر جلوہ گر رہے۔ آپ کا وجود دور جدید میں ایک روشن مینار تھا جن کی روشنی سے اسلامیان برصغیر کے مومنین کے قلوب منور ہوتے رہے اور جو اس زمانے میں خواجہ خواجگان مخدوم محکمہ الدین اسرانیؒ کی تصویر تھے۔حضرت قبلہ صالح محمد اویسیؒ اور حضرت سلطان بالا دین اویسی جب ہر دو برادران آستانہ خانقیہؒ میںآتے تو دنیا دیکھتی رہتی جس طرح دو حسین و جمیل فرشتے اتر کر آئے ہوں۔ تمام مریدین‘ ادب‘ تعظیم‘ ارادت وعقیدت سے حاضر ہوتے۔ حضرت قبلہ خواجہ صالح محمد اویسیؒ کے دو صاحبزادے میں بڑے
صاحبزادے حضرت و اعلیٰ خواجہ غلام اویس اویسی اور چھوٹے صاحبزادے حضرت خواجہ شہاب الدین اویسی ہیں۔آپ نے اپنی زندگی میں دستار حضرت و اعلیٰ خواجہ غلام اویس اویسی کے سر پر رکھی اور سجادگی عطا فرمائی اس وقت تمام درویش آستانہ پر موجود تھے اگرچہ بیعت کی اجازت ہو گئی تھی لیکن میری سرکار نے اپنے والد کی موجودگی میں یہی مناسب سمجھا کہ تمام لوگ والد صاحب سے اپنے دل کو روشن کریںحضرت قبلہ خواجہ صالح محمد اویسی ؒ نے نصف صدی تک لوگوں کو فیض پہنچایا ۔ آپ کی نظرِ عنایت جس پر پڑتی وہ مطیع بن جاتا۔ لیلتہ القدر بروز جمعرات ستائیس رمضان المبارک کے روز کمزوری انتہا کو پہنچ گئی جب وصال کا وقت قریب آیاتو اپنے فرزند ارجمند حضرت خواجہ غلام اویس اویسی کو بلوا کر اپنے پاس بٹھا کر تخلیہ کر لیا اور نعمت عطا فرمائی اور تلقین فرمائی کہ لوگوں کو گمراہی سے نکال کر صراط مستقیم دکھائیں‘ عاجزوں اور سائیلوں کو محروم نہ رکھیں‘ غریبوں اور عالموں کے مددگار رہیں۔ 1994 ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور جنت الفردوس کو سدھار گئے۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق حافظ نظام الدین اویسی نے پڑھائی ۔ خلق کا بے حد ہجوم تھا آپ کا مزار مبارک درگاہ خالقیہؒ میں مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ آپ کے مزار سے فیوض و برکات جاری ہیں۔ آپ کا مزار پرانور رشدوہدایت کا مرکز ہے۔