""مقبوضہ وادی میں بڑھتا ظلم"
میرا دل چاہتا ہے کہ مجھے" میزائل" کے ساتھ باندھ کر انڈیا پر پھینک دیں۔"انڈیا "ضرور چلوں گا مگر تب جب" آپ "ٹینک پر بیٹھ کر جائینگے" ۔ نظریاتی سپہ سالار پاکستان" ڈاکٹر مجید نظامی"۔جب بھی "ہمسائے" کی شرارتیں‘ سازشیں‘ مکروہ عزائم آشکار کرتے بیانات دیکھتے ۔ پڑھتے ہیں تو "قبلہ مجید نظامی" بے طرح یاد آتے ہیں ۔ اُنکی موجودگی ایک ڈر ۔ خوف تھا جو" حکمرانوں "کو باندھے رکھتا تھا ۔ جب بھی اُس طرف سے کوئی حرکت ہوتی ۔ اِدھر سے ترنت جواب دیا جاتا بلکہ" حکومت" مجبور ہوتی کہ عملاً نہ سہی ۔ زبانی سرزنش ہی کردیتی ۔ مگر اب؟ نہ وہ تاریخ ساز لوگ رہے نہ حریت پسند ۔ دبنگ آواز حکمران ۔
"مُودی "کی ذہنیت ہمیشہ پاکستان کے خلاف نت نئی سازشیں ۔ شیطانی جال بُننے کا کام کرتی ہے۔دن ۔ بدن سیاسی ۔ معاشرتی ۔ معاشی لحاظ سے کمزور ہوتا ملک دنیا کی اکثریتی آبادی پر بندوق تان کر امن قائم نہیں کرسکتا ۔ اسلامی انتہا پسندی کا مفروضہ قطعاً غلط ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی مذہب کو خطرہ نہیں ۔ صرف" اسلام" یلغار کا سامنا کر رہا ہے جو کہ مستند" امن پسنددین" ہے۔ ضرورت ہے کہ باہمی اعتماد ۔ بھروسہ کو فروغ دیا جائے ۔ صرف ہم پر دباوٗ ڈالنے کی روش کو ختم ہونا چاہیے۔ تبھی آگے بڑھا جا سکے گا۔
مقبوضہ وادی" نہتے انڈین فوجیوں کے ہاتھوں خون کا سرخ تالاب بن گئی ۔ ایک کے بعد ایک نوجوان ہیں کہ مسلسل اسکے ہاتھوں جام شہادت نوش کرتے جارہے ہیں مگر ڈر کر دبک نہیں رہے۔ وادی" امن کے ظالم بوٹوں "تلے دبی سسک رہی ہے ۔ کوئی پُرسان حال نہیں ۔ پہلے مہینہ میں ۔پھر ہفتہ بعد ایک نوجوان شہید ہوتا تھا اب ایک دن میں "4-3"ماوٗں کے لعل گولی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گولیاں ہیں کہ کڑیل وجود نگلتی جارہی ہیں ۔ تحریر دھندلا جاتی ہے۔ حروف مٹ سکتے ہیں ۔ کتابیں بوسیدہ ہو جاتی ہیں۔پر تاریخ مٹ سکتی ہے اور نہ ہی دل کا وہ درد جو انسانی المیے سے جنم لے۔ ظلم و جور کی زنجیروں میں جکڑی ہر لمحہ معصوم بچیوں ۔ جوان خون کی قربانیاں دیتی "مقبوضہ وادی" پر دل سے لفظ بولنا کس قدر دشوار ۔ یہاں دشواری سے مُراد لکھنا نہیں بلکہ کہنا یہ مقصود ہے کہ حرص و آز کے قلعوں میں سکونت پذیر ہم لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ چناروں کے اُس پار" خونی دجال" کے قہر ۔ تشدد کا پا مردی سے مقابلہ کرتی کشمیری قوم کے دُکھ کو دل سے محسوس کر سکیں ۔
عالمی دنیا کی قیادت کسی اور ہی طرف جارہی ہے وہ تو دنیا کو پہلے سے بھی زیادہ جنگ زدہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اُنکے پاس تو وقت ہی نہیں کہ بھارتی اشتعال انگیزی ۔ خونی جارحیت کے آگے بند باندھ سکیں ۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ3,2بچے شہید نہ ہوں۔ کشمیریوں کو ہراساں کرنا تو بہت معمولی کام ہے۔ رات ہو یا دن گھروں پر چھاپے مار کر جو تذلیل کی جاتی ہے۔ لفظ اُس کا احاطہ نہیں کر سکتے ۔ دنیا کی غفلت اور ہماری بے حسی کی وجہ سے آج مقبوضہ وادی خون میں ڈوبی نظر آتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سفارتی سطح پر ماحول تیار کرے مسئلہ کے حل بابت ۔ صرف اخلاقی مدد کافی نہیں اِس حال میں کہ حالت انتہائی پتلی ہو۔ یعنی اخلاقی مدد تو ہم ہر لمحہ فراہم کرتے ہیں پر اب تو مضبوط قدموں کی ضرورت ہے۔ہمارا کیس اُسی صورت مضبوط ہو سکتا ہے کہ خود کی آواز توانا ہو ۔ ثبوت اور حقائق تو اٹل سچے ہیں ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہماری صدا ضائع نہ ہونے پائے ۔ یہ اِس صورت ممکن ہے کہ ہماری آواز میں بیرونی دنیا کی آواز شامل ہو۔ بہت ضروری ہو چکا ہے کہ مسئلہ کے دیرپا‘ پائیدار اور حتمی حل کی طرف بڑھا جائے۔
"صورتحال خطرناک ہے" ۔ کوئی ملک‘ کوئی فورم بے خبر نہیں‘ لا علم نہیں ۔ مقبوضہ وادی میں انڈین فورسز کے تشدد سے شہید ہونے والوں کی خبریں دنیا بھر میں برابر پہنچ رہی ہیں ۔ ساتھ ہی تشدد زدہ تصویریں بھی ۔ ہر ظلم سے انکار ۔ ہر تصویر کو جھوٹی کہہ کر جھٹلانے سے سچ کو دبانا ممکن ہوتا تو جدوجہد آزادی کی جنگ لڑتے سکھ‘ تامل‘ کشمیری کبھی بھی یورپی ‘ امریکی سڑکوں پر احتجاج کرتے دِکھائی نہ دیتے۔ بے رحمانہ بر بریت کے باوجود مقبوضہ وادی میں حریت کی آوازیں مدھم نہیں ہو پائیں ۔ بلکہ اِن کو دبانے کے واسطے اسلحہ کم پڑ گیا۔ایک طرف شدید آفت کورونا۔ دوسری طرف ظلم کے باوجود جب بھی کوئی "نوجوان" شہادت کے رتبے پر فائز ہوتا ہے۔ لوگوں کا جم غفیر رُوح پرور ایمان کیساتھ جنازے میں شریک ہوتا ہے اور مقبوضہ وادی "پاکستان سے رشتہ کیا " لَا اِللہ اِلَا للہ" کے نعروں سے گونج اُٹھتی ہے ۔ شاطرانہ چال چلنے والا ہندو ذہن خود اپنے ہاتھوں خود کش دھماکے کی نذر ہو گیا ۔ شہریت قانون نے پورے انڈیا کو بارود کے ڈھیر میں بدل ڈالا ۔ کیا مسلمان‘ کیا ہندو‘ کیا سکھ‘ تامل‘ ہر علاقہ احتجاجی مرکز میں بدل چکا ہے۔ واقعی جو فوج 80 لاکھ کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکی وہ 25" کروڑ "پاکستانی قوم سے کیسے لڑ سکے گی؟