محفوظ اعانت میں انفرادی کردار
سیر ت نبی کریم ؐ کی روشنی میں سب سے پہلے میں یہ بات عرض کروں گا کہ ہم جب انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں تو اس بات کا تعین کرنا ہے کہ جن رقوم کو ہم اپنے ہاتھو ں سے خرچ کر رہے ہیں وہ جن ہاتھوں میں پہنچ رہی ہیں کیا وہ واقعتا ضرورت مند بھی ہیں یا نہیں۔ ہمیں اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔کم و پیش 2017ء کے ماہ رمضان میں یہ کمپین چلائی گئی کہ ہمیں اپنے صدقات محفوظ جگہ پر دینے ہیں۔ پاکستانی عوام خاص طور پر خیرات دینے کے حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں پاکستانی اکانومی دنیا کی بڑی اکانومی نہیں ہے۔ برطانیہ ،کنیڈا ، جرمنی ، امریکہ ، چین ، جاپان یہ وہ معیشتیں ہیں جو دنیا کو لیڈ کرتی ہیں لیکن جب ہم ان کی اکانومی میں موجود خیرات کی شرح دیکھتے ہیں تو ہمیں دھچکا لگتا ہے۔ برطانیہ کی کل معیشت کے سامنے اس کی چیریٹی کا ریٹ 1.46.3فیصد ہے۔ کینیڈا کا ریٹ 1.46.2فیصد ہے۔ اس کے مدِ مقابل پاکستان کی معیشت کا حجم ان بڑے ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی عوام جو یہاں پر چیریٹی کرتے ہیں اس کی شرح1%سے زائد ہے یعنی چیریٹی کے اندر پاکستانی عوام اسی سطح پرچیریٹی کررہے ہیں جس پہ یہ ترقی یافتہ ممالک اور وہ معیشتیں جو مضبوط ہیں ہے۔ پاکستان میں ہونے والی چیریٹی کا حجم2014ء میں 240 بلین رہا ہے۔ 2018 میں بڑھ کر 500بلین سے زائد ہو جاتا ہے اور پھر ہم پچھلے سال کی بات کرتے ہیں تو اس کا حجم 554بلین سے زائد ہے۔اتنی رقوم ہر سال پاکستانی چیریٹی کی مد میں نکالتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسرے کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ نبی کریم ؐ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہیں ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والا ہاتھ سے بہتر ہے (یعنی ) دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے۔ یہ 554بلین روپے کی چیریٹی جاتی کہاں ہے؟ پاکستانی عوام چیریٹی اپنے ہاتھ سے خرچ کرنا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان میں چیریٹی دینے والے 69%لوگ نقد پیسوں میں چیریٹی کرتے ہیں اور باقی 31%اشیاء یا اپنی سروس چیریٹی کے طور پر دیتے ہیں۔ یہ نقد رقوم کہاں پہ خرچ ہوتی ہیں؟ این جی اوز میں، مدارس میں ، مساجد میں ، مختلف خیراتی ہسپتالوں میں اور معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی مختلف غیر حکومتی تنظیموں میں یہ رقم تقسیم ہو جاتی ہے۔ سندھ میں کریک ڈائون ہونے سے پہلے 10500کے قریب این جی اوز کام کر رہی تھیں۔ جن میں سے پچھلے سال 4693 این جی اوز کو حکومت نے ختم کر دیا۔ ان کو جعلی ہونے کی بناء پریارقوم کے غلط استعمال پر بند کیا گیا۔ بہت سی ایسی دہشت گرد تنظیمیں جو بین ہو چکی ہیں بین ہونے کے چھ ماہ یا ایک سال بعد یہ نئے نام سے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ چیریٹی ان کے پاس بھی جانا شروع ہو گئی۔
پاکستانی عوام جو اربوں روپے چیریٹی کے لیے دینا چاہتے ہیں وہ ایسے اداروں کو دیں جو شدت پسندی سے دور ہیں اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر کیا ہو گا۔ہمارے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے پاکستان میں نئے قوانین اور خاص طور پر پنجاب میں 2018ء میں ایک قانون متعارف کروایا گیا ہے کہ کس طرح اپنی رقوم کو فلاح کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ میری ساری گفتگو کرنے کا قطعاً مقصد یہ نہیں کہ ہم چیریٹی بالکل نہ دیں۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اپنی خیرات جعلی اور شدت پسند اداروں کو نہ دیں جو مال اللہ تعالی ٰ کی طر ف سے آیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دینے کے لیے دو طریقے ہیں۔ ایک کو صدقہ واجبہ، دوسرے کو صدقات نافلہ کہا جاتا ہے۔ زکوٰۃ،فطرانہ ، عشر یہ تمام چیزیں صدقات واجبہ میں آتی ہیں۔ یہ ہر صاحب نصاب نے دینی ہے۔ نبی کریمؐکی تعلیمات جو ہمارے سامنے ہیں ان میں صدقات واجبہ کے بعد صدقات نافلہ کی بات آتی ہے۔ صدقات نافلہ کا مطلب کیا ہے؟ آپ اپنی مرضی سے صدقات واجبہ کے علاوہ رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ‘‘ اب یہ پوری انسانیت کے لیے ایک پیغام دے دیاگیا اور خاص طور پہ مسلمانوں کو پیغام دے دیاگیاکہ اگر آپ نے اچھا بننا ہے تو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا بن جائیں۔
جب نبی کریمؐپہلی وحی کے بعد اپنے گھر تشریف لاتے ہیں تو حضرت خدیجہؓ ان کو ڈھارس دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ غریبوں کی مدد کرتے ہیں، محتاجوں کے کام آتے ہیں۔ امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ جب ماہ رمضان آتا ’’تو آپؐ تیز ہوا کے چلنے سے بھی زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے تھے ‘‘۔ آپ نے بیواؤں، مساکین کو کھانا کھلانے اور یتیموں کے اوپر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا۔ آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کچھ رقم کا مطالبہ کیا۔ نبی کریمؐ نے اس سے پوچھا تم کیا کام کر سکتے ہو۔ اس نے کہا میں لکڑیاں کاٹ سکتا ہوں۔ آپ نے اس کے لیے کلہاڑے کا بندوبست کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے روزی کمائے۔
اسلامی معاشرے میں وہ آدمی جسے زکوٰۃ لگتی ہے ’’ غربت کا معیار ‘‘ہے۔ جو زکوۃ دینے والا ہے وہ ’’امارت کا معیار ہے‘‘۔ جب نبی کریمؐ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا والی بنا کر بھیجا توآپ نے تین سال میں بالترتیب ایک تہائی، دوتہائی پھر تمام زکوٰۃ سے حاصل ہونے والی رقوم مدینہ منورہ بھیج دیں اور ساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ ہمارے ہاں زکوٰۃ کی رقم لینے والے کوئی شخص نہیں بچا اس لیے زکوٰۃ کی ساری رقم مدینہ منورہ بھیجی جا رہی ہے اگر کسی علاقہ میں سارے زکوٰۃ دینے والے ہیں پھر انہیں چاہیے کے مرکز میں بھیج دیں پاکستان میں زکوٰۃ کا باقاعدہ محکمہ ہے۔ اس کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے۔ میں تقریباً 7سے 8سال پنجاب زکوٰۃکونسل کا ممبر رہا اور پنجاب کو مرکز کی طرف سے ایک ارب سے زائد زکوٰۃ کی رقم ہر سال موصول ہوتی رہی۔ پنجاب میں تقریبا 36000 سے زائد لو کل کمیٹیاں ہیں جو زکوٰۃ کی رقم کو غریب عوام تک پہنچاتی ہیں۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ ہم اپناجو مال زکوٰۃ اور فی سبیل اللہ میں خرچ کریں وہ ان ہاتھوں میں پہنچے جہاں پہ واقعتا اس کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا اس آدمی کی ذمہ داری میں آتا ہے جو زکوٰۃ دینے والا ہے اور یہ شرعی مسئلہ بھی ہے۔
اس سال کرونا کی وباء کی وجہ سے کاروبار و تجارت کی شرح نمو منفی ہو رہی ہے۔ عوام کی اکثریت روزانہ کی بنیاد پر روزینہ حاصل کرتی ہے۔ پچھلے دو ماہ کے مسلسل لاک ڈاون نے معاشی حالات کو دگر گوں کر دیا ہے۔ ایسے میں فلاحی اداروں کو دی جانے والی اعانت میں بھی 50%سے 60%تک کمی نظر آ رہی ہے۔ خاص طور پر مدارس جو دینی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں وہ نہایت مشکل حالات میں ہیں۔ آئیے ان کی مدد کیجئے۔ انہیں اداروں میں سے ایک دارالعلوم جامعہ نعیمیہ محمد نگر لاہور بھی ہے جو گزشتہ 67برسوں سے دین متین کی خدمت کر رہا ہے۔ ہزاروں طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس ادارے کے پرنسپل ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کو اس لیے خود کش دھماکے میں شہید کر دیا گیا کہ انہوں نے انتہا وشدت پسندی اور پاکستان میں ہونے والے خود کش دھماکوں کو حرام کہا، اس کی اعانت یقینامحفوظ اعانت ہے۔ مدرسہ کے اکائونٹ نمبرزالائیڈ بینک گڑھی شاہو برانچ کوڈ نمبر0542، اکاوَنٹ نمبر0010002900340019 اور میزان بینک گڑھ شاہو برانچ 0250-0102175807 ہیں۔ اللہ رب العزت اس ماہ مقدس کی تمام فلاح و بہبود کے حصول کے راستوں کو ہمارے لیے آسان بنا دے۔