چینی بحران کے ذمہ داروں کے نام تو پہلے ہی سامنے آ چکے تھے۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد فرانزک رپورٹ نے بڑے بڑے ناموں کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ حکومت کا یہ عمل قابل تحسین ہے کہ اس نے چینی کے بحران پر تحقیقات کروائیں، رپورٹ شائع کی اور ذمہ داروں کو عوام کے سامنے رکھ دیا۔ عوام کے حقیقی خدمت گاروں کو ایسے کاموں کا کریڈٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے کریڈٹ معنی نہیں رکھتا ان کا جذبہ اللہ کی رضا اور حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت ہوتا ہے۔ جب کام اللہ کی رضا اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیے کیے جاتے ہیں تو حمایت یا مخالفت کرنے والوں کی تعریف یا تنقید معنی نہیں رکھتی۔ ہمارے کئی مسائل کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اکثر و بیشتر فیصلے اور اقدامات کسی کو نشانہ بنانے کے لیے کرتے ہیں یا پھر عوامی جذبات کا رخ موڑنے کے لیے کرتے ہیں یا پھر اصل مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے نیا موضوع نکالتے ہیں۔ چونکہ فطری اصولوں میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ہمارے حکمران ایسے اقدامات سے وہ تمام مقاصد حاصل کر لیتے ہیں جس کے لیے کوئی فیصلہ کرتے ہیں لیکن کبھی عوامی مسائل کے پائیدار حل کی طرف نہیں جا سکے یہی وجہ ہے کہ آج تک عام آدمی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ حکمران کیا سوچتے ہیں اور ان کے فیصلوں میں کیا مصلحت شامل ہوتی ہے اس بارے میں حتمی طور پر تو کہنا مشکل ہے لیکن حالات، واقعات، شواہد اور کچھ ذاتی تجربات یہی بتاتے ہیں کہ عوامی مسائل ترجیحات میں بہت نیچے ہوتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ ہے اللہ کرے کہ یہ سوچ اور طرز عمل بدل جائے کیونکہ پاکستان میں عام آدمی دہائیوں سے پس رہا ہے۔ اللہ کرے کہ وطن عزیز میں عام آدمی کے مسائل حل ہوں اور اسے سکون نصیب ہو۔
ان باتوں کا چینی بحران سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں لیکن یہ ہماری تلخ تاریخ ہے۔ ہم شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے جو ہمارے دلوں میں چھپا ہوتا ہے۔ وہ سب چھپی اور ظاہر چیزوں کو جانتا ہے۔ وہ سرگوشیوں کو بھی جانتا ہے۔ کاش ہم اس حقیقت کو سمجھ جائیں۔ یقین مانیے یہ ہماری بنیاد ہے اور اگر ہمارے حکمران اس پر واپس آتے ہیں تو مسائل کم ہوں گے۔ ہمیں ہر سطح پر اس سوچ اور عمل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ میں ملوث افراد کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنے اور ریکوری کی رقم گنے کے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش بھی کی ہے۔ جہانگیر خان ترین کہتے ہیں کہ وہ ہر الزام کا جواب دیں گے اور اسے غلط بھی ثابت کریں گے۔ ہمیشہ صاف ستھرا کاروبار کیا ہے ٹیکس ادا کیا ہے اور کسانوں کو مکمل ادائیگی کی ہے۔ دہرے کھاتے نہیں بنائے۔ جہانگیر خان ترین کے لیے مشکل وقت ہے ایک وقت میں وہ عمران خان کے سب سے زیادہ قریب تھے لیکن چینی بحران سے یقیناً ان کی دوستی پر فرق آیا ہے اور اس رپورٹ کے بعد مزید دوریاں پیدا ہوں گی۔ ہم نے گزشتہ روز اپنے قارئین کے سامنے فرانزک آڈٹ کی تمام تفصیلات رکھ دی تھیں۔ انہی نکات پر رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔
اگر اس سکینڈل کا پس منظر دیکھیں تو مجموعی طور پر اداروں کی بہت بڑی ناکامی ہے کیونکہ چند ماہ میں چینی کی قیمت ساٹھ روپے فی کلو سے نوے روپے فی کلو تک پہنچ گئی کسی کو ہوش نہیں آئی اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک سال سے ہم آٹا، چینی اور اشیا خوردونوش کے حوالے سے انہی صفحات پر مسائل کی نشاندہی کر رہے ہیں تجاویز پیش کر رہے ہیں، مسائل کا حل بتا رہے ہیں لیکن کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اس عدم توجہی کی وجہ سے عام آدمی پر مسلسل بوجھ بڑھتا رہا ہے حد یہ ہے کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی چینی کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آئی، کیا چینی کی قیمت ساٹھ روپے فی کلو ہو گئی ہے اگر نہیں ہو سکی تو اس سارے عمل کا عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا بالکل اسی طرح جیسے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچا اس کا اعتراف وزیراعظم عمران خان بھی کر چکے ہیں۔ ایک سال تک اگر مل مالکان یا اس کاروبار سے منسلک افراد کھیل کھیلتے رہے تو اداروں نے انہیں کھلی چھوٹ کیوں دیے رکھی۔ چینی کی قیمت لگ بھگ تیس روپے فی کلو بڑھ گئی۔ ملکی سطح پر شور بلند ہوا اور پھر تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک روپیہ فی کلو اضافہ کر کے پانچ ارب سے زائد منافع کمایا جاتا ہے۔ گذشتہ پانچ برس میں شوگر ملوں کو انتیس ارب کی سبسڈی دی گئی کیا اس کے ثمرات عوام تک پہنچے ستم یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے سبسڈی دینے کے باوجود عام آدمی کو فائدہ ملنے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔
اب وزیراعظم عمران خان کا حقیقی امتحان ہے کہ رپورٹ کے مطابق ریکوری کی جائے، متاثرین کو رقم تقسیم کی جائے اور چینی کو ماضی کی قیمت پر واپس لایا جائے۔ حکومت چینی کی قیمت کا تعین کرے اور طے شدہ قیمت پر عوام تک فراہمی کو یقینی بنائے۔ رپورٹ میں جن افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ان کی اکثریت تردید کر چکی ہے اس لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ ابھی بہت کام ہونے والا ہے یہ کھیل یہیں ختم نہیں ہو گا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا چینی کی قیمت کم ہو گی؟
چینی کے ساتھ اشیاء خوردونوش کے معاملے میں حکومت کو قیمتوں کے طریقہ کار پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔ ورنہ عام آدمی لٹتا رہے سرمایہ دار مال بناتا رہے اور حکومت تحقیقات کرواتی رہے گی۔ مرغی کے گوشت کے تیزی سے بڑھتی قیمتیں اس کی بڑی تازہ ترین اور بڑی مثال ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38