جمعۃ المبارک ‘ 28 ؍ رمضان المبارک 1441 ھ‘ 22؍مئی 2020ء
لاہور میں ریلوے سٹیشن پر لگا سینی ٹائزر گیٹ پہلے ہی روز جواب دے گیا
لگتا ہے، سینی ٹائزر گیٹ بھی محکمہ ریلوے کا ہی ’’ہم عمر‘‘ ہوگا کہ جو پہلے دن ہی جواب دے گیا اور ریلوے عملہ مسافروں کو گیٹ کی بجائے دوسری طرف سے گزارتا رہا۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ شیخ رشید ’’گفتار‘‘ کی طرح ’’کردار‘‘ میں بھی فعال ہوں گے اور ملک میں دوسرے محکموں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے محکمہ کی بھی خبر لیتے رہیں گے لیکن شومئی قسمت ایسا نہ ہوسکا۔ اس عدم توجہ سے بعض عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایسا سینی ٹائزر گیٹ نصب کیا جو پہلے دن ہی جواب دے گیا۔ یقینا بعض ’’ضعیف العقیدہ‘‘ مسافروں نے اسے اچھا شگون نہیں سمجھا ہوگا۔ محکمہ ریلوے کی شاید قسمت ہی ایسی ہے کہ ہر کھٹارہ چیز اسکے حصے میں آتی ہے۔ ایک شیخ رشید کو نکال کر دیکھا جائے تو ’’باقی سب خسارہ ہی لگتا ہے۔‘‘ دوسری طرف محکمہ ریلوے کے افسر اور ملازمین بھی شیخ رشید کی ’’غیرنصابی‘‘ سرگرمیوں کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ عین ممکن ہے شیخ رشید کے سیاسی مخالفین اور ’’پیشہ ور‘‘ حاسدین بھی ایسے کاموں میں ملوث پائے جاتے ہوں کہ شیخ رشید طرح طرح کی پیشگوئیاں کرکے ہر وقت اخبارات اور چینلز کی زینت بنے رہتے ہیں اور اسی صلاحیت کے باعث سوشل میڈیا پر بھی موضوع بحث بنے رہتے ہیں تو یقینا سینی ٹائزر کے ناقص گیٹ کی تنصیب ایسے ہی لوگوں کی شرارت ہوگی جو شیخ رشید کی شہرت سے جلتے ہوں گے۔ ویسے تو ’’اول خویش بعد درویش‘‘ اور ’’Charity begins at home.‘‘ (سخاوت گھر سے شروع ہوتی ہے)کے مصداق شیخ رشید کو اصلاح، تنقید، تعمیر اور ترقی کے کاموں کا آغاز اپنے گھر (محکمہ ریلوے) سے ہی کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو تو یقینا ریلوے کارکردگی بہتر سے بہترین ہو۔ سینی ٹائزر گیٹ بھی پہلے ہی روز جواب نہ دے جائیں، حادثات کے خدشات بھی کم سے کم ہوں۔ محکمہ ریلوے ’’ریل کار‘‘ کی مانند نہیں، ’’برق رفتار‘‘ سے ترقی کرے لیکن یہاں تو منیر نیازی والی بات ہے کہ
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
٭…٭…٭
نیب زیرحراست ملزموں کیلئے عید پر ’’ہائی ٹی‘‘ کا انتظام کریگا، گلدستے بھی بھجوائے گا
کرپشن کے خاتمے کیلئے ’’نیب‘‘ نے جب سے آواز بلند کی ہے اور بلاامتیاز احتساب کا نعرہ لگایا ہے تب سے مختلف حیلوں بہانوں سے کرپٹ عناصر نے ’’نیب‘‘ کو نشانے پر لے رکھا ہے اور ’’اپنا، پرایا‘‘ جو بھی نیب کی زد میں آجاتا ہے‘ وہ تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ زیرحراست نیب ملزم ہمیشہ ناروا سلوک کی ہی شکایت کرتے رہے ہیں لیکن نیب نے عید پر کوٹ لکھپت اور کیمپ جیل میں ’’ہائی ٹی‘‘ کے اہتمام اور گلدستے بھجوانے کا عندیہ دے کر زیرحراست ملزموں کے دل جیت لئے ہیں۔ نیب کی زیرحراست ملزم یقینا ہوٹل سے سالن، روٹی یا کسی دکان سے آٹا، چاول، چینی اور گھی چرانے والے یا کسی مسجد و مدرسہ کے ’’گلہ‘‘ سے پیسے نکالنے والے تو نہیں ہیں بلکہ ’’نیب‘‘ کے ملزم تو قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے والے ہیں، اس لئے ’’پروٹوکول‘‘ ان کا ’’تقاضائے منصب‘‘ ہے ورنہ عام چوروں اور دیگر ملزموں کے نصیب میں جیلوں کے اندر ’’ہائی ٹی‘‘ اور گلدستے کہاں۔ ’’خاناں دے خان پروہنے‘‘ کے مصداق ’’نیب‘‘ کا ملزم ہونا بھی معمولی بات نہیں، یہی ’’اعزاز‘‘ ہے اور یہی فرق ہے ’’نیب ملزم‘‘ اور ’’عام ملزم‘‘ میں۔ ’’نیب‘‘ کا ملزم سزا یافتہ ہو یا ’’نیب‘‘ سے ’’کلین چٹ‘‘ کا حامل ہو، دونوں صورتوں میں ہی وہ ’’پکڑائی‘‘ نہیں دیتا، اس لئے ’’نیب ‘‘ کے زیرحراست ملزموں کو ’’ہائی ٹی‘‘ گلدستے اور عید مبارک۔
٭…٭…٭
سندھ اسمبلی کی سیڑھیوں پر اپوزیشن کا اجلاس۔ ’’بھاشن نہیں،راشن دو‘‘ کے نعرے
تحریک انصاف، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی پر مشتمل اپوزیشن نے وزیراعلیٰ سندھ کو ’’رونا دھونا شاہ‘‘ اور ’’کیلیکولیٹرشاہ‘‘ قرار دیا۔ ہمارے ارکان اسمبلی کااحتجاج بھی انوکھا اور منفرد ہوتا ہے، وہ اسمبلی کے اندر ہوں یا باہر، نام عوام کا لیا جاتا ہے اور احتجاج کی کامیابی کی صورت میں ملنے والے مفادات ’’مظاہرین ارکان اسمبلی‘‘ خود سمیٹتے ہیں ورنہ ان کو آٹے، دال کے بھائو سے کیا غرض۔ آلو، ٹماٹر کے نرخوں سے کیا واسطہ۔ جیسا گزشتہ روز سندھ اسمبلی کی سیڑھیوں پر اپوزیشن ارکان نے اجلاس کیا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھاشن نہیں، راشن دو۔‘‘ اسی طرح انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو ’’رونا دھونا شاہ‘‘ اور ’’کیلکولیٹر شاہ‘‘ بھی قرار دے دیا۔ اپوزیشن کا احتجاج اگر مثبت ہو اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کیلئے ہو تو بہت اچھا ہے لیکن اگر تنقید برائے تنقید کیلئے ہو تو پھر مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ سندھ کے علاوہ باقی 3 صوبوں میں بھی اگر اپوزیشن کے ایسے احتجاج کی روایت چل نکلتی ہے تو ’’دور تلک جائے گی۔‘‘
٭…٭…٭
افغانستان: کرونا وائرس نے نوجوانوں کو شادی تقریبات مختصر کرنے پر روک دیا
افغانستان میں قانون کے ایک طالب علم نے شادی کیلئے 2سال سے 15ہزارڈالر جمع کئے اور 1200 مہمانوں کی فہرست تیار کی لیکن کرونا کے باعث شادی کی تقریب اس کو 2ہزار ڈالر اور 40مہمانوں تک محدود کرنا پڑی۔ کرونا نے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خوشی، غمی کی ہر تقریب کو انتہائی مختصر کر دیا ہے اگر ہم پاکستان میں کرونا سے پہلے کے حالات اور تقریبات کا موجودہ صورتحال سے تقابل کریں تو افغانستان کے نوجوان کی شادی کی تقریب ہماری تقریبات کے مقابلے میں چنداں اہمیت نہیںرکھتی۔ کرونا سے پہلے ہمارے ہاں شادی کی تقریبات پورا پورا ہفتہ جاری رہتی تھیں۔ مہندی اور ولیمے تک تقریبات کے دوران اگرچہ شادی والے گھر کا ’’معاشی کچومر‘‘ نکل جاتا تھا لیکن وہ ’’ناک بچانے‘‘ کے چکر میں ’’سی‘‘ نہیں کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ شادی کی ان ’’فضول خرچ تقریبات‘‘ کے ’’مضر اثرات‘‘ چند ہفتوں بعد ہی آنا شروع ہو جاتے تھے، تاہم کرونا نے اس سلسلے میں ’’خاموش خیرخواہ‘‘ کا کردار ادا کیا۔ ہفتہ عشرہ جاری رہنے والی سینکڑوں افراد کی تقریبات سمٹ اور سکڑ کر چند گھنٹوں اور چند مہمانوں کی ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب بھی اگر کوئی کرونا سے فائدہ نہ اٹھائے پھر تو اسکی عقل گھاس چرنے ہی گئی ہوگی اور اس سے وہ افغان طالب علم ہی بہتر ہے، جس نے موقع کو غنیمت جانا اور سنبھال لیا۔
٭…٭…٭