بدھ ‘ 16 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 22 ؍مئی 2019ء
پاکستان نے بھارت کو ہرا کر وہیل چیئر ایشیا ٹی 20 کپ جیت لیا
کھٹمنڈو میں جسمانی معذوروںکی قومی ٹیم نے جس طرح اپنے روایتی حریف بھارت کو فائنل میچ میں 5 وکٹوں سے ہرا کر نیپال کے میدان میں دھول چٹا دی اس سے پاکستانیوں کے دل باغ باغ ہو گئے ہیں۔ اپنی طرف سے تو بھارت کی ٹیم نے 211 رنز کا پہاڑ کھڑا کر کے سوچ لیا تھا کہ اس نے میدان مار لیا مگر گرین شرٹس نے 5 وکٹوں کے نقصان پر ہی بھارتی رنز کا پہاڑ عبور کر کے فتح اپنے نام کر لی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری وہ خصوصی ٹیمیں جو بیرون ملک کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہیں ہمارا بے حس میڈیا ان کی طرف سے نجانے کیوں آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ ویسے تو اگر ہم بھارت کو بیت بازی کے مقابلے میں بھی ہرادیں تو واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ مگر ان سپیشل کھلاڑیوں کی فتوحات پر خاموشی کیوں رہتی ہے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے تو رخسانہ راجپوت کی سرپرستی میں ایشیا کی فتح کے جھنڈے گاڑنے والی پاکستان کی وہیل چیئر کرکٹ ٹیم کی پہلے بھی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ اس ٹیم کے ٹرافی کے ساتھ لاہور آنے پر گورنر پنجاب اسکے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے اس کا گورنر ہائوس میں نہ صرف پرتپاک استقبال کرینگے بلکہ اپنے پہلے سے اعلان کردہ ایک لاکھ روپے کے نقد انعام سے بھی نوازیں گے۔ ہمارے وزیراعظم خود بھی ایک بڑے کھلاڑی ہی نہیں کرکٹ کے ہیرو بھی ہیں۔ انہیں تو کم از کم کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں انہیں انعامات سے نوازنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔ اوہ بھی نقد اور دل کھول کے انعام دیں۔
٭٭٭٭
کیوں نہ نظرثانی کر کے جعلی ڈگری والوں کیخلاف پرچہ درج کرنے کا حکم دیں: سپریم کورٹ
ضروری تو یہی ہے کہ عدالت اب ایسا حکم جاری کر ہی دے تاکہ جو لوگ پہلے فیصلے کی آڑ لے کر من مانی تاویلیں کرتے ہیں انہیں لگام ڈالی جا سکے اور جعلی ڈگریاں حاصل کرنے والوں کو بھی مزہ آئے کہ دو نمبر کام کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اب تو ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصل ہو یا نقلی کا بے مثال محاورہ ایجاد کرنے والے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی نے بھی اصلی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے۔ شاید انہیں بھی پتہ چل گیا ہے کہ اصلی ڈگری اصلی ہوتی ہے۔ نقلی ڈگری نقلی۔ پی آئی اے میں ہی کیا جس محکمہ میں بھی اسناد چیک کرائیں ڈھیروں جعلی ڈگریاں منہ چڑاتی ہماری گڈگورننس کا مذاق اڑاتی نظر آئیں گی۔ عام کلرکوں کی تو بات چھوڑیں یہ ثانوی نہیں اعلیٰ درجہ کی ڈگریاں خرید کر لوگ اعلیٰ پوسٹوں پر تعینات ہیں۔ کوئی انجینئر ہے ، کوئی پائلٹ ، کوئی وزیر ہے ، کوئی مشیر ، کوئی ایم پی اے ہے اور کوئی ایم این اے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی ڈاکٹر ہے اور کوئی سرجن۔ اب پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں کے کیس کے ساتھ اگر عدالت عظمیٰ ملک بھر میں جعلی ڈگریوں کیخلاف گرینڈ ایکشن کا حکم دے تو امیدہے ملک بھر کی عدالتیں جعلی ڈگریوں کے مقدمات کی سماعت سے بھر جائیں گی۔ کیونکہ ہر محکمہ میں درجنوں جعلی ڈگری رکھنے والے نجانے کب سے رزق حلال کما رہے ہیں۔ کئی ایک تو باعزت ریٹائرڈ ہو کر حاجی بھی بن چکے ہوں گے۔ ان سب سے قومی خزانے سے فراڈ کر کے کھائی جانے والی تنخواہیں نکلوا کر واپس خزانے میں جمع کرائی جائیں تو ہماری پتلی معیشت کی کمزور صحت قدرے بہتر ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭
جنید خان کا سوشل میڈیا پر منہ پرٹیپ لگا کر انوکھا احتجاج
جنید خان پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بائولر ہیں۔ اچھے کھلاڑی ہونے کی وجہ سے انہیں لوگ بھی پسند کرتے ہیں۔ وکٹ حاصل کرنے کے بعد ان کا پرجوش انداز انہیں اور بھی دلفریب بنا دیتا ہے۔ اب انہیں ورلڈ کپ سکواڈ سے ڈراپ کرنے کا کارنامہ پی سی بی کے سلیکٹرز کا سنہری کارنامہ کہلائے گا یا سیاہ اس کا فیصلہ بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ یہ تو جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ پی سی بی کے سلیکٹروں کو ہی پتہ ہو گا کہ انہوں نے یہ کام کس بنیاد پر کیا۔ اس فیصلے میں کارکردگی کا عمل دخل تھا یا ذاتی پسند ناپسندکا۔ یہ تو وہی جانتے ہیں۔ البتہ جنید خان نے جس خوبصورتی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا وہ قابل داد ہے۔ اسے سپورٹس مین شپ کی اعلیٰ مثال بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ ’’کچھ کہنا نہیں چاہتا سچ کڑوا ہوتا ہے‘‘ یہ جملہ ہی کافی ہے ویسے بھی ہمارے ہاں سچ سنتا ہی کون ہے اور وہ بھی کڑوا سچ ویسے ہی منہ بگاڑ دیتا ہے۔ اب جنید نے منہ پر ٹیپ چپکا کر وہ سب کچھ کہہ دیا جو لوگ سننا چاہتے تھے۔ بقول شاعر
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
یہ ایک تصویر ہی ان کے جذبات کی بھرپور عکاسی کر رہی ہے اور کچھ بھی نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ اب کھیل سے محبت کرنے والوں اور خاص طور پر جنید خان کے پرستاروں کی طرف سے پی سی بی پر جو گولہ باری ہو گی اس کے لیے شیشے کے گھر میں رہنے والوںکوتیاررہنا چاہئے۔
٭٭٭٭
مردوں کی چاند پر اجارہ داری ختم۔ ناسا کا چاند پر خاتون اتارنے کا پلان
ناسا نے 2024 ء میں ایک خاتون خلاباز کو چاند کی زمین پر قدم رنجہ فرمانے کا پلان تیار کر لیا ہے۔ اس طرح اب چاند کی گود میں نجانے کتنے مہتاب اتریں گے۔ اس سے چاند پر اثر پڑے نہ پڑے ہمارے ادب اور شاعری پر ضرور اثر پڑے گا جو صدیوں سے آسمانی چاند کے سحر میں کچھ اس قدر مبتلا ہے کہ جیسے بھوکے کو حسین چہرہ بھی روٹی نظر آتا ہے اسی طرح ہمارے شاعروں کو ہر حسین چہرہ چاند نظر آتا ہے جبکہ ساحر لدھیانوی جیسے بے باک شاعر نے البتہ یہ کہہ کر حقیقت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی تھی کہ
میں تجھے چاند کہوں یہ مجھے منظور نہیں
چاند کے پاس بھی کیا رکھا ہے داغوں کے سوا
ہمارے دیگر شعرا تو آج تک اسی بوڑھے چاند پر مرے مٹے جاتے ہیں اور
میں جو شاعر کبھی ہوتا تیرا سہرا کہتا
چاند کو چاند نہ کہتا تیرا چہرہ کہتا
والی کیفیت سے باہر نہیں نکل پاتے۔ نہ ہی نکل پائیں گے۔ چاند شب اول کا ہلال ہو یا چودھویں کا مہ کامل۔ اس کی ہر شکل سے لوگ کمال درجہ محبت کرتے ہیں۔ شب اول کے طلوع پر تو محبت کی بات چھوڑیں دنگا فساد بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو اس نئے چاند کی مہربانی سے ملک خداداد کے لوگ دو دو عیدیں مناتے چلے آ رہے ہیں۔جسے ہم دونی خوشیاں منانا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں چاند پر اترنے والی پہلی خاتون کا تاج کس کے سر سجتا ہے۔ وہ چندے مہتاب ہو گی یا حقیقی چاند کی طرح بنجر ویران۔ جیسی بھی ہو چاند پر قدم رکھنے کا اعزاز تو اسے بھی چاند والی چندا بنا دے گا۔
٭٭٭٭