سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایون فیلڈ لندن اپارٹمنٹس ریفرنس میں احتساب عدالت میں دوسرے روز بھی بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ قطری شہزادے کا خط اور ورک شیٹ تسلیم شدہ ہے، قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی، قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا۔ اختر راجہ کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدارانہ تھا ،اختر راجہ واجد ضیاء کے کزن ہیں۔انہوں نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فارنزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں اختر راجہ اور جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیز حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نیب تفتیشی آفیسر نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیز حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، اختر راجہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوٹو کاپی پر فارنزک معائنہ کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ فارنزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنہ پر ہچکچاہٹ ظاہر کی ۔منگل کے روز سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے سامنے ایون فیلڈ لندن اپارٹمنٹس کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رکھا، پیر کے روز نواز شریف نے عدالت کی جانب سے 128 سوالات پر مشتمل سوالنامہ میں سے 55 سوالات کے جواب دے دیئے تھے۔ نواز شریف کا منگل کے روز بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہنا تھا کہ اختر راجہ واجد ضیاء کے کزن ہیں،اختر راجہ کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدارانہ تھا، جیرمی فری مین کے5جنوری 2017ء کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی، جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ اختر راجہ جے آئی ٹی اور نیب کے تفتیشی آفیسر نے جیرمی مری مین سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اختر راجہ کو معلوم ہونا چاہیے فوٹو کاپی پر فرانزک معائنہ کا کوئی تصور موجود نہیں اخترراجہ نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فارنزک ماہر کو ای میل کے ذریعہ بھجوائیں یہ بھی حقیقت ہے کہ فارنزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنہ پر ہچکچاہٹ ظاہر کی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے نیب کی 3رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی جبکہ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا اور اختر راجا نے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے ملزم کے بیان قلمبند کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ 342 کے بیان کے منشاء یہ ہے کہ ملزم بیان قلمبند کروائے ان کا کہناتھا کہ بیان کے دوران وکیل سے قانونی نکات پر وکیل سے مدد لی جا سکتی ہے یہ کوئی طریقہ نہیں کہ چھ کی لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر سناتے رہیں اس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس پر نواز شریف کاکہنا تھا کہ میں اس بیان کو اون کرتا ہوں یہ بیان میں نے خود خواجہ صاحب کی مشاورت سے تیار کیا ہے میں زیادہ دیر تک پڑھتا رہوں تو گلہ میں مسئلہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے خواجہ صاحب کو پڑھنے کا کہا ہے نیب کو اس پر اعتراض کرنا تھا تو گزشتہ روز کر لیتے نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد نواز شریف نے دوبارہ خود بیان پڑھنا شروع کر دیا۔مسلم لیگ (ن)کے تاحیات قائد نے اپنے بیان میں کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ مجھے باقی معاملات کا پتا نہیں، قطری خاندان کے ساتھ کاروبارمیں خود شریک نہیں رہا۔نواز شریف نے قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 22 دسمبر 2016 کا قطری شہزادے کا خط اور ورک شیٹ تسلیم شدہ ہے، قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی، قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ورک شیٹ کی تیاری میں بھی شامل نہیں تھا۔ قطری شہزادے نے کبھی جے آئی ٹی کی کارروائی میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا، قطری شہزادے کے آمادہ ہونے کے باوجود بیان قلمبند کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان خود ریکارڈ نہیں کیا، واجد ضیا کا تبصرہ سنی سنائی بات ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024