اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈیڑھ ارب روپے کی رقم ماہ رمضان کے لیے سبسڈی کا اعلان کیا۔ صوبائی گورنمنٹ بھی ایکٹو ہو چکی ہے۔ رمضان سستے بازاروں کا اعلان ہوتے ہی اس پر عملدرآمد ہو چکا۔ ہفتہ پہلے ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کا اعلان تک کر دیا گیا تھا۔جیسے جیسے رمضان کی آمد آمد ہوئی۔ بازاروں کے لیے صف بندی پورے جوبن پرر ہی۔ ٹینٹ شامیانے لگا دئیے گئے۔ بازار سج چکے۔ دوسری طرف یہ شوشہ بھی مسلسل چھوڑا جارہا ہے کہ دکانداروں نے ریٹس بڑھا دیئے ہیں۔ یہ تاجر برادری جیسا منہ زور گھوڑا کیا موجود حکومت کی عملداری میں نہیں آتا؟ تاجروں کے معاملے میں حکومتی رٹ اتنی کمزور کیوں؟ یا پھر کچھ مافیاز ہیں جو ان دنوں میں اپنی کمر سیدھی کرتے ہیں۔ اربوں روپے کی سبسڈی مافیاز ڈکار جائیں گے۔ یا پھر واقعی ضرورت مند اس سے مستفید ہونگے؟ ضرورت مندوں کی تشریح کر دی جاتی تو مجھ جیسے کم فہم شخص کو کالم لکھنے کی جسارت نہ ہوتی۔ میرے نزدیک ان سستے بازاروں میں ہر شخص خریداری کر رہا ہوتا ہے۔ جس شخص کی آمدنی ہزاروں میں ہو یا پھر لاکھوں میں۔ سہ پہر کیا ہوتی یہ اشرافیہ سستے بازاروں پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ کیا سب لوگ اس سہولت کے حقدار ہیں؟ ویسے تو حکومت نے کم سے کم آمدنی کی شرح تیرہ ہزار روپے رکھی ہوئی ہے۔ کیا حکومت وقت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ کتنی آبادی کم سے کم شرح آمدنی کے نیچے ہے اور کتنی برابر ہے اور کتنی زیادہ ہے۔ کیا شماریاتی ادارہ پاکستان اس بات کی وضاحت کرسکتا ہے؟ حالانکہ کچھ ماہ قبل مردم شماری ہوچکی ہے۔ اب تک شماریاتی ادارے کے پاس ڈیٹا کمپائل ہو چکا ہونا چاہیے تھا۔ اور حکومت وقت کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ کتنے لوگ مستحق ہیں اور صرف ان پر توجہ دی جاتی تو کہیں اچھا ہوتا۔ مسئلہ صرف کم آمدنی والے لوگوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا ہے۔ یہ کیسے ہوگا؟ واقعی ضرورت مند ہی اس سکیم سے فائدہ اٹھائیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے بھی اس سبسڈی سے بھر پور فائدہ اٹھارہے ہوتے ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے۔
بدقسمتی سے کہنے کو توپاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کو ایک ویلفیئر سٹیٹ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں ہے۔ ادارے ضرور تشکیل دئیے گئے۔ لیکن عمل ندارد۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دیکھ لیں۔ اس کی وہ درگت بن رہی ہے جو بیان کے قابل نہیں۔ سب کام جعلی ہورہا ہے۔ پیپر ورک پورا ہے، لیکن مستحق لوگوں کو کتنا مل رہا ہے وہ سوچنے کی بات ہے۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ تشکیل تو ضرور پا چکا ہے۔ صرف وہاں پر تعینات عملے کے لیے۔ دوسری بات زیادہ تر لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں اگر کوئی فرد جانتا بھی تو عملے کے لوگ ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ لوگ پھر ادھر کا رخ ہی نہیں کرتے۔ لیکن وہاں کا سو فیصد بجٹ باقاعدہ صرف ہوجاتا ہے۔ وہ بھی جعلی ڈیٹا پر۔ ایک پائی بھی مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہاں پر ہمیشہ نحوست ٹپکتی نظر آئے گی۔ فائلوں کے انبار لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن وہاں سائل ایک بھی نظر نہیں آتا۔
ان دو ڈیپارٹمنٹ پر حکومت توجہ کر لے۔ تو کوئی بھی شخص کم از کم غریب نہیں رہے گا۔ رمضان سبسڈی صرف تیرہ ہزار آمدنی یا اس سے کم آمدنی والے کو ملنی چاہیے۔ ایسے ایونٹ پر لوگوں کی آمدنی کی کم سے کم شرح پچیس ہزار کر دینی چاہیے چاہے وہ تنخواہ دارطبقہ ہی کیوں نہ ہو، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ ہولڈرز ہوں، مساجد کے پیش امام ہوں، چوکیدار ہوں،عام مزدور۔ یا پھر وہ عورتیں اور بچے جو لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔ تاکہ حقیقت میں مستحق لوگ ہی مستفید ہوں۔ ایسے بازارسجانے کی بھی ضروت پیش نہیں ائے گی۔ سب سے اہم بات گورنمنٹ کو چاہیے کہ ہر چیز کے ریٹس کم از کم ڈیڑھ ماہ کے لیے فریز کردے۔ اسی ڈیڑھ ماہ کے لیے انتظامیہ کا دفتروں میں بیٹھنا ممنوع قرار دیا جائے۔ وہ مارکیٹس میں موجود رہیں۔ خلاف ورزی کرنے والے کو موقع پر سخت سزائیں دی جائیں۔ سبسڈی کا پیسہ کم آمدنی والے لوگوں میں برابر بانٹ دیا جائے۔ ان کی خوشیوں کو دوبالا کیا جائے۔
اگر ایسا نہیں ہو گا تو خدا کی پکڑ سے یہ حکومتی اشرافیہ اور ذمہ داران بچ نہیں پائیں گے۔ سر شام غریب اورنادار لوگ جوق در جوق گھروں اور ہوٹلوں کے ارد گرد پھرنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید کچھ کھانے کو مل جائے۔ اشرافیہ اور امیر بھی کیا کمال کے لوگ ہیں، چیزیں جو بچ جاتی ہیں کوڑے میں گرانا تو گوارہ کرتی ہیں کسی کی بھوک مٹانا نہیں۔ یہ ناداربچے، بوڑھے اور نوجوان ان کوڑا دانوں سے بیٹھے کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں؟ یہ منظر دیکھ کر دل بھر جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔کب تک حکومتوں کی نااہلی کا رونا روتے رہیں گے۔ان لوگوں کے لئے دل سے بس یہی آہ نکلتی ہے۔
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
ہے کون زمانے میں میرا پوچھنے والا
ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے
شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا
ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے
آنسو بھی ہیںآنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے
کیا پھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورکا انتظار کرنا پڑے گا؟ جنہوں نے ایک دفعہ بر ملا کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو مجھ سے بازپرس ہوگی۔ عمربن عبدالعزیز جیسا کوئی حکمران اب شاذ ہی پیدا ہو۔ جس کے دور میں انسانوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعدغلا اتنا بچ گیا تھا کہ پہاڑوں پر گروا دیا گیا تاکہ پرندے سیر ہو سکیں۔ وہ تھے بیغرض حکمران، جب دنیا سے رخصت ہوئے تو تہی دست تھے۔ مگر افسوس آج کے حکمران کا کیا عالم ہے؟ جس کا بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ جنہیں صرف اپنی فکر ہے۔