تیر ے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے…
خدائے عز و جل نے انسان کو جو دولت علم و فکر، فہم و تدبر اور نطق گویائی سے نوازا ہے۔ یہ اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ میرے پیشِ نظر اس وقت وہ انسان ہیں جو انسانیت کا حاصل اور جوہر قابل ہیں جو خاکی ہیں مگر فرشتے ان کی غلامی اور خدمت پر ناز کرتے ہیں۔ جو مخلوق ہیں مگر خود مشیت ان کے ارادوں اور خواہشات کی ترجمانی اور تکمیل کرتی ہے اور اگر وہ انسانیت کے معراجِ کمال پر ہوں تو خود خالقِ کائنات ان کا استقبال ’’فلنو لینک ترضٰھا‘‘ سے کرتا ہے یعنی ’’ہم تیرے منہ کو اس طرف پھیر دینگے جس طرف تو چاہے گا‘‘ اور غالباً یہی خیال ہے جس کی ترجمانی حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے یوں کی ہے۔
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اہل حق کی عزم و استقلال کا استقبال ہمیشہ فتح و نصرت سے ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس بلند مقام کا مالک ایک مرد مومن ہی ہو سکتا ہے اور یہ مقام اتنا بلند ہے کہ فرشتے بھی اس کی بلندیوں کو حیرت اور استعجاب سے دیکھتے ہیں۔
کوئی جبریل سے پوچھے میری پرواز کی شوکت،
ستارے بھی تماشائی، ملائک بھی تماشائی
مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مقام اسے صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے دل کے سوز و یقین سے گرما لیتاہے ، پھر اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ’’جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا، تو کر لیتا ہے، یہ بال و پر روح الامین پیدا‘‘اور پھر اپنے اسی سوز و یقین سے مسلح ہوکر وہ نانِ جویں سے فاتحِِ خیبر بنتا ہے اور اسی شمشیر یقین سے مسلح ہو کر وہ لشکر باطل کے مقابلہ میں ریگ زارِ کربلا کے ذرہ ذرہ گوہر شب چراغ بناتا ہے اور جب مسلمان عزم و یقین کے جوہرکے حامل تھے تو مشرق و مغرب ان کی غلامی پر نازکرتے تھے۔ تاریخ عالم شاہد ہے۔ ایک دو نہیں سینکڑوں ایسے واقعات ہیں، جہاں مسلمان میدان کارزار میں نہتا و بے سروسامان نکلا، ٹوٹی پھوٹی تلواریں اور پیٹ پر پتھر باندھے نکلا مگر سوز و یقین اور تیغ خودی کی صیقل عشق پر چڑھا کر نکلا اور زبان حال و قال سے یہ پڑھتا ہوا نکلا۔
’’غلام میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
لیکن آج کشمیر، فلسطین، عراق، شام، برما اور بھارت میں جس بہیمانہ اور بیدردی سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور دنیا میں دہشت گردی کا ڈرامہ رچا کر مسلمانوں کو ہی اس تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہاں تک ہی نہیں اب ایران پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دوسرے مسلم ممالک بھی سن لیں کہ ایک روز ان کے ساتھ بھی یہی ہوگا،ابھی بھی وقت ہے۔ مسلم اُمّہ اپنے تمام اختلافات پسِ پشت ڈال کر متحد ہو جائو تم دنیا کی سب سے بڑی افرادی قوت ہو جو تیل کی دولت سے مالا مال ہو۔ اگر اب بھی اس جانب توجہ نہ دی تو پھر میں شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے ان الفاظ کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ
تیرے دریا میں دوبان کیوں نہیں ہیں
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے
عبث ہے، شکوہ تقدیرِیزداں،
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟