کاش ہمیں بھی ایسا استاد مل جاتا
DEAD POETS SOCIETY'' ''جیسی فلم دیکھنے کے بعد ادب کے کسی سینئر طالب علم نے کتنے افسوس کے ساتھ سوچا ہوگا کہ کاش! ہمیں بھی کوئی ایسا استاد مل جاتا جو ہمیں محبت کے ساتھ بتاتا کہ اگر تمہیں قراۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کی روح میں اترنا ہے تو اس ناول کو موہنجو داڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا کے خاموش کھنڈرات یا دریا کے ویران ماحول میں بیٹھ کر پڑھو۔ صرف وہاں کے ماحول میں تم جان پائو گے کہ گو تم نیلبر کا سفر منزل کے حوالے سے لاحاصل کیوں ہے؟ ان کھنڈرات میں بیٹھ کر تم تاریخ کے اس دور میں داخل ہو سکتے ہو جو اپنی خوشیوں، اپنے دکھوں، اپنی تھکاوٹ اور اپنے سکون کے ساتھ زندگی کی ایک بھرپور صورت تھا۔ اس دور میں صرف درد نہیں تھے بلکہ زخمی ہونٹوں پر مسلی کلیوں جیسا تبسم بھی کھلا کرتا تھا۔ اس دور میں صرف جنگوں کے ترانے نہیں تھے بلکہ محبت کے گیت بھی تھے۔ اس دور میں صرف وہ تلواریں نہیں تھیں جن سے خون ٹپکتا ہے بلکہ اس دور میں چمپا جیسی حسین ترین عورت کی وہ آنکھیں بھی تھیں جن سے مسلسل آنسو بہتے تھے۔ اس دور میں انسان اتنا ہی تنہا تھا جتنا آج ہے۔ اس دور میں حسن ایک تشدد کی تصویر ارو محبت ایک مظلوم کی فریاد ہوا کرتی تھی۔ صرف لباس زبان اور انداز سے انسان تبدیل نہیں ہوتے۔ جو ناول تمہیں یہ بات بتائے وہ بات اس ماحول میں اچھی طرح سے سمجھ میں آ جائے گی جو ماحول اب مدفون ہو چکا ہے۔ مگر تم اس کو تصور کی توانائی سے پھر وجود میں لا سکتے ہو۔
''DEAD POET SOCIETY " جیسی فلم دیکھتے ہوئے کوئی اُستاد بھی سوچ سکتا ہے کہ مجھے مسلط ہونے والے نصاب سے نکل کر اپنے طالبعلموں کو یہ بتانا ہے کہ اگر تم ’’راجہ گڑھ‘‘ کی غمگین ہیروئن سیمی شاہ کی روحانی کیفیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہو تو اس ناول کو کلاس میں بیٹھ کر مت پڑھو۔ یہاں سے نکل جائو اور تمہیں اگر لائبریری کی وہ سیٹ نہ ملے جس کی کھڑکی کیمپس کی طرف کُھلتی ہے تو پھر یونیورسٹی کے کسی سنسان گوشے میں بیٹھ جائو ار محبت کے نام پر رشتوں کی تلاش کرنے والی لڑکیوں کو بھول کر ایک ایسی جنونی کردار کے بارے میں سوچو جو محبت میں اس طرح تحلیل ہو چکی ہے کہ وہ تصورکی آنکھ سے یہ بھی دیکھ سکتی ہے کہ آج شیو کرتے ہوئے اس کے محبوب کے رخسار پر ایک کٹ آ گیا ہے جو یہ بھی جانتی ہے کہ نہ ملنے والے دوست نے آج کس رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔ آج وہ خوش ہے یا ناخوش! تصور میں ایک بلا کی طاقت ہوتی ہے۔ جو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں تصور اسے بھی دیکھ پاتا ہے اور تصور وہ نہیں ہوتا جو صرف دماغ سے کیا جائے۔ سچا تصور تو اس وقت جنم لیتا ہے جب دل و دماغ ایک موڑ پر آ کر بالکل تھک کر ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔ جب دل دماغ کی طرح سوچنے لگتا ہے اور دماغ دل کی طرح دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کیفیت سے ایک کرن پھوٹتی ہے تصور کی۔ جو سب کچھ دیکھ سکتی ہے۔ بھلے اس کی پلکیں جھکی ہوئی کیوں نہ ہوں۔
''OLD MAN & THE SEA'' جیسا ناول ایک کالم کی طرح تحریر نہیں ہوا تھا۔ اس کے تصور نے ایک دہائی کی ریاضت کی تھی۔ دس برس کے انتظار کے بعد ارنیسٹ ہیمنگوے نے قلم اٹھایا اور اپنے بوڑھے ہیرو کے بارے میں لکھا کہ ’’وہ ہر طرح سے بزرگ تھا سوائے اپنی ان نیلی اور سیاہ آنکھوں کے جو سمندر کی طرح سرکش اور سد جوان تھیں ادب کا ایک انقلابی استاد اپنے طالب علموں کو صرف یہی کہہ سکتا ہے کہ اپنی بندوق سے اپنا قتل کرنے والے مصنّف کا یہ مختصر ناول اس کال کوٹھڑی جیسی کلاس میں بیٹھ کر مت پڑھو، تم لوگ کل مت آنا اور ساحل دریا پر جانا اور وہاں بیٹھ کر اس بوڑھے مچھیرے کی کہانی پڑھنا جس کا نام سنتیاگو تھا۔ جو کیوبا کے ساحلوں پر اپنی بدقسمتی کے زخم سینے میں چھپا کر گیلی ریت پر آہستہ آہستہ چلا کرتا تھا۔ وہ سنتیاگو جس نے زندگی کی آخری ایام کے دوران اپنے نوجوان شاگرد کو اپنا ساتھی نہیں سمجھا۔ اس لئے وہ ایک دن تنہا نکل گیا اس نیلے سمندر میں جہاں وہ چوالیس دنوں تک شکار کا انتظار کرتا رہا اور پنتالیسویں دن اسے ایک جھٹکا لگا اور اس پر یہی انکشاف ہوا کہ وہ اب وہ بھی جی سکتا ہے۔ پھر اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا شکار حاصل کرنے کیلئے شارک مچھلیوں سے مسلسل مقابلہ کیا زخمی ہاتھوں کے ساتھ اس مقابلے کے دوران وہ صرف پتواروں کو ہتھیار بنا کر حملہ کرنے والی شارکس کے ساتھ لڑتا ہی نہیں تھا بلکہ وہ اس کشتی میں بیٹھ کر خواب بھی دیکھتا رہا۔
افریقہ کے ان جزائر کے خواباں ڈھلتے ہوئے سورج کے سائے میں شیر بڑی بلیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں اور جب اس کی زخم جیسی آنکھ کُھل جاتی اور شارک اس کے شکار پر حملہ آور ہوتی تو وُہ اپنی کشتی میں موجود کوئی بھی چیز اُٹھا کر اسے دے مارتا اور کہتا ’’انسان تباہ ہو سکتا ہے لیکن مفتوح نہیں ہو سکتا‘‘۔''OLD MAN & THE SEA'' جیسے عظیم ناول کا المیہ یہ ہے کہ اسے نصاب میں شامل کر دیا گیا جب تفریح امتحان بن جائے تب لطف دم توڑ دیتا ہے۔ اگر یہ ناول ہمارے نصاب کا حصّہ نہ ہوتا تو یہ کتاب ہر اس گھر میں موجود ہوتی جس کا ترجمہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ہو چکا ہے۔ یہ کتاب جو ہمیں بتا سکتی ہے کہ ہیرو کیلئے ضروری نہیں ہے کہ وہ نوجوان ہو اگر ہیرو ہونے کیلئے ایک مسلسل جنگ درکار ہوا کرتی ہے وہ جنگ جو حاصل اور لاحاصل سے ماورا ہوا کرتی ہے جو ایک عزم کے بطن سے پیدا ہوتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔ ’’وداع جنگ‘‘ کے بعد اسپین میں فرانکو کے خلاف لڑنے والے مصنف نے ’’بوڑھا سمندر‘‘ نامی ناول اس وقت لکھا تھا جب وہ جوانی کی سرحد عبور کر چکا تھا مگر اس کو کچھ وعدے پورے کرنے تھے۔
OLD MAN & THE SEA'' ''کی طرح کُچھ وعدے پورے کرنا چاہتا ہے۔ وہ بوڑھا شخص جو اس مجرم سمندر جیسے شہر میں اپنے وجود کی کمزورکشتی کو اس ساحل پر لے جانا چاہتا ہے جو ساحل ایسی محبّت کی مانند ہے جو کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ وہ شخص جو اس دریائی کنارے پر آباد شہر شجاع آباد کا سنتیاگو ہے جو یہاں پر سیاسی مافیا کی مچھلیوں سے مسلسل لڑتے ہوئے انسانیت کے کنارے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے وہ شخص جو اپنے آپ کو بدی کے اس دور میں نیکی کا عظیم لیڈر سمجھتا ہے جو صرف بڑوں سے ہی نہیں بلکہ عام لوگوں سے بھی عزت سے ملتا ہے۔وہ جب باتیںکرتا ہے اس وقت کے چہرے پر نوزائیدہ بچّے کے نرم و نازک ہونٹوں پر کھلنے والی مسکراہٹ کی طرح نیکی کا ایک احساس کنول کے پھول کی طرح لہرانے لگتا ہے۔''OLD MAN & THE SEA'' جیسا ناول لکھنے کیلئے اسے اردو ادب کو نیا جنم لینا ہوگا جو اب تراجم کی نیم تاریک راہوں میں بھٹک رہا ہے۔ جس میں تخلیقی توانائی ختم ہو چکی ہے۔ کہاں گئی اس ادب کی توانائی جو ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’راجہ گدھ‘‘ لکھ سکتی تھی۔ وہ ادب اب ایک این جی اوز کا پروجیکٹ بن چکا ہے۔وہ ادب بوڑھا تو ہو چکا ہے مگر سنتیاگو کی طرح نہیں اگر اس ادب میں سنتیاگو کی طرح قلم سے لڑنے والی لڑائی کا جذبہ ہوتا تو وہ ادب ایسا ناول لکھتا جس میں سچائی، ایمانداری، محبت، رواداری اور ایسے جذبوں کے امین افراد کا ذکر ہوتا۔