مسلم اُمّہ کی بے حسی
سابق فرانسیسی صدور اور وزراء اعظم سمیت 300فرانسیسی دانشوروں نے ایک عرضی پر دستخط کیے تھے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ قرآن شریف کی ان آیات کو حذف کیا جائے جن میں یہود و نصاریٰ سمیت کافروں کو قتل یا سزا دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔فرانس کی طرف سے ایسے مطالبے کے بعد ترکی بھی چپ نہ رہا اور فرانس کو منہ توڑ جواب دیا۔اور کہا کہ قرآن کریم جس شکل میں نازل ہوا ہے۔ قیامت تک اسی شکل میں محفوظ رہے گا۔ترک صدر کے ترجمان ابراہیم قالن نے فرانسیسی مطالبے پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔اور اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن پاک ہماری مقدس کتاب ہے۔اور یہ کتاب اللہ کی امانت ہے۔قرآن پاک وحی کے ذریعے نازل ہوا اور قیامت تک اسی شکل میں اس کی حفاظت کی جائے گی۔انٹی صہونیت ایک نظریۂ نفرت ہے جو یورپ سے بھرا پڑا ہے۔۔یورپ اپنا قبلہ درست کرے ورنہ نتائج حوصلہ افزا نہیں ہوں گے۔ایسا مطالبہ کرنے والے حقیقت میں کم عقل اورو حشی ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے قرآن کریم کی کچھ آیات حذف کرنے کے مطالبے کی سختی سے مذمت کی ہے۔
اردوان نے اس مطالبے کو انتہائی گھٹیا قرار دیتے ہوئے مغربی ممالک کو منافق اور اسلام دشمن سے تشبیہہ دی ہے۔ترکی کے نائب وزیر اعظم بکر بوزداع نے اپنے ٹویٹر پیج سے فرانسیسی مصنفین اور سیاست دانوں کی طلب پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اسلام کے ازلی دشمن فرانس کے سابق صدر سرکوزی سمیت 300 فرانسیسی مصنفین اور سیاست دانوں نے صیہونیت دشمنی پھیلانے کی ’’اختراع کے ساتھ قرآن سے بعض آیات کو خارج کرنے کا مطالبہ‘‘ کیا ہے۔دراصل یہ 21 ویںصدی کے کم عقل ، وحشی اور ابو جہل ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیم داعش کا مغربی ویژن ہیں۔‘‘بوزداع نے کہا ہے کہ ’’سرکوزی سمیت سب دشمن ایک جگہ جمع ہو جائیں تو بھی نہ تو قرآن سے، اس کی کسی سورۃ یا کسی ایک آیت سے مشابہہ کلام پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے تبدیل کر سکتے ہیں۔‘‘ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے بھی اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ طلب نسلیت پرستی اور اسلام دشمنی کے درجے کی اور ہٹ دھرمی کی مظہر ہے۔ یہ لوگ اپنی حدود سے تجاوز کر چکے ہیں۔ جب یہ لوگ ایسے بیانات دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ یورپ میں مساجد پر حملوں کی شکل میں نکلتا ہے۔‘‘چاوش اولو نے کہا کہ تاریخ بھر میں عثمانی حکومت ا ور مسلمانوں نے یہودیوں کی اور ان کے حق حقوق کی حفاظت کی ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ہم میں صیہونیت دشمنی نہیں ہے۔ یہ چیز ہمارے عقیدے اور قرآن کے منافی ہے۔ اس وقت یورپ میں نسلیت پرستی، عدم تحمل ، مہاجر دشمنی اور ہر اس شخص کو جو ان میں سے نہیں دشمن کی نگاہ سے دیکھنا عروج پر پہنچ چکا ہے۔‘‘چاوش اولو نے کہا کہ یورپ میں نسلی پرست سیاسی پارٹیاں اپنے عروج پر ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ کون سے آزادی کی بات کر رہے ہیں اور کس کو سبق سکھا رہے ہیں۔
کم از کم ایک ہزار سال سے یہود و نصاریٰ اپنی شکستوں اور رسوائی کا بدلہ لینے کیلئے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں لیکن مجموعی طورپر ناکامی انکا مقدر رہی ہے۔ اب انہوں نے مسلمانوں کو شکست دینے کیلئے انہیں قومیت اور لسانیت میں تقسیم کر دیا ہے اور اس بناء پر مسلم امہ تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے۔ حالیہ سعودی حکمرانوں کے ساتھ تعلقات اُستوار کئے جو پسِ پردہ اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور آج کل سعودی عرب اور دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جو قوانین نافذ کئے جا رہے ہیں اور جس طرح انہیں آزادی دی جا رہی ہے وہ اس کی واضح مثال ہے۔ یہودو نصاریٰ کا واحد مقصد اسلام اور مسلم امہ کو نقصان پہنچانا ہے جس میں وہ بتدریج کامیاب ہو رہے ہیں اور قرب قیامت کی واضح نشانیوں بارے جو احادیث نبویؐ ہیں اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو موجودہ حالات اس کے عین مطابق ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یورپ بظاہر دیکھنے اور کہنے کو معتدل اور لبرل ہے اور دوسروں پر بھی یہی اُصول لاگو کرتا ہے۔ یورپ کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی جیسے وہ چاہتا ہے، گزارنے کی اجازت ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ مذہب کو ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہونا چاہئے۔ لیکن جب اسلام کی بات آتی ہے تو ان کے دلوں میں موجود اسلام کا خوف بغض کی شکل میں نکل آتا ہے۔ اور ایسے ایسے مطالبات کرنے لگ جاتے ہیں جن کو سن کر لگتا ہے کہ یہ انسان ہے ہی نہیں بلکہ شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ایسے اقدامات اور بیانات کے بعد یورپی ممالک کا مکروہ چہرہ سامنے آگیا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ جس طرح عیسائیت کو ایک گرجا میں بند کر دیا گیا ایسے ہی اسلام کو بھی مسجد تک بند کر دیا جائے اور مسلمانوں کی زندگی سے اسے نکال باہر کیا جائے۔ لیکن جس قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہو ا اللہ کا کلام انسانوں کے سینوں سے کیسے ختم کریں گے۔قرآن کریم ہماری مقدس کتاب اور اللہ کی امانت ہے ۔ قرآن پاک جیسے وحی کے ذریعے نازل ہواروزِ قیامت تک اسی شکل میں اس کی حفاظت کی جائے گی۔لیکن افسوس یہ ہے کہ اس سنجیدہ معاملے پر مسلم امہ کی مسلسل خاموشی لمحۂ فکریہ ہے ۔
٭٭٭٭٭