الیکشن 2018ءلولی لنگڑی جمہوریت کیلئے نیک فال
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے درمیان نگران وزیراعظم کیلئے تاحال اتفاق رائے نہیں ہو پایا ، تاہم توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ معاملہ الیکشن کمشن کے پاس بھجوانے پر دونوں کا اتفاق رائے ہو جائے گا۔ الیکشن کمشن بھی جولائی میں الیکشن کرانے کیلئے تیار ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو میاں نوازشریف کے دیئے گئے انٹرویو سے خاصا دھچکا لگا ہے۔ اگرچہ انٹرویو میںکوئی خلاف حقیقت بات نہیں تھی‘ لیکن بھارتی میڈیا نے اسے منفی رنگ دیا۔ پاکستانی میڈیا میں اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر افراد نے نوازشریف دشمنی میں نوازشریف کے جملوں کی زہریلی تشریح کر ڈالی جس سے عام لوگ بھی کہہ اٹھے ”میاں صاحب کو یہ سب کچھ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔“مسلم لیگ (ن) کی میڈیا مینجمنٹ ایک مرتبہ پھر پوری طرح ناکام ہوئی جبکہ دفاع کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نوازشریف کے اسٹیلشمنٹ کے سامنے تن کر کھڑے ہو جانے کے باعث دفاعی پوزیشن پر آنا پڑا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کے بعد اس انٹرویو نے بھی مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو مشکل میں ڈالا۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کا تعلق ہے‘ وہ بلاشبہ زوروں پر ہے۔ میاں نوازشریف کے بیانئے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مریم نوازشریف زبردست لیڈر بن کر ابھر رہی ہیں جبکہ میاں شہبازشریف کی قائدانہ صلاحیتیں لوگوں کے سامنے آرہی ہیں۔ وہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دوروں میں ان دونوں صوبوں کو بھی پنجاب کی طرح ترقی یافتہ بنانے اور ان صوبوں کے دارالحکومتوں کراچی اور پشاورکو لاہور بنانے کے وعدے کر آئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صوبوں کا عام آدمی شہبازشریف کی بات پر یقین کر رہا ہے اور ان دوروں کے دوران اکثر لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ میاں شہبازشریف کو ایک موقع ضرور ملنا چاہئے۔ دھن کے پکے شہبازشریف کے مخالفین نے ان کا خواب اورنج ٹرین پریشان کرنے کی بے حد کوششں کی جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود اسلام پارک سے لکشمی چوک اورنج لائن ٹرین کا گیارہ کلومیٹر کا آزمائشی سفر حکومت کے خاتمے سے پندرہ روز پہلے کرایا گیا جس میں صحافتی دنیا کے مسلم لیگ (ن) کے حامی اور مخالف موجود تھے۔ اس سفر نے ظاہر کر دیا کہ عام آدمی کی اس سواری میں خواص کی سواریوں میں موجود تمام سہولیات میسر ہیں۔
اورنج لائن ٹرین میں بزرگ شہریوں‘ خواتین اور معذوروں کیلئے علیحدہ نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف‘ شہبازشریف کے مخالفین نے الیکشن 2018ءسے پہلے اورنج لائن ٹرین کو مکمل طورپر فنکشنل نہیں ہونے دیا‘ لیکن عام آدمی کو البتہ یقین ہو گیا ہے کہ اب اس ٹرین کا رواں دواں ہو جانا بس چند ماہ کے فاصلے پر ہے۔ لوگوں کو یہ بھی یقین ہے کہ فاﺅل پلے نہ کیا جاتا تو شہبازشریف نے باضابطہ طورپر اورنج لائن ٹرین کو دسمبر 2017ءمیں چلا دینا تھا کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ لاہور میں میٹرو بس کے منصوبے کو انہوں نے گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرکے برادر ملک ترکی کو حیران کردیا تھا جہاں سے یہ آئیڈیا لیا گیا اور ان کی میٹروجس کا منصوبہ 13 ماہ میں مکمل ہوا تھا۔ سو اورنج ٹرین کے تکمیلی مراحل نے نہ صرف پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے ووٹروں کو بلکہ پنجاب بھر کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کر لیا ہے۔ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ برادر صوبہ خیبر پختونخوا میں میٹرو جس کا منصوبہ تاحال تکمیل کی منزل سے کافی فاصلے پر ہے اور شہبازشریف بجا طورپر موازنے کیلئے اسے عوام کے سامنے پیش کر سکیں گے‘ اچھا ہے کہ الیکشن 2018ءحکومتی کارکردگی کی بنیاد پر لڑا جائے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی جناب زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری اور سید مراد علی شاہ پہلے ہی انتخابی جلسوں میں پیش کر رہے ہیں۔ اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ کس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ووٹ ڈالیں گے اور کن لوگوں کو مسترد کر دیں گے۔ ہمیں یقینا اللہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ پاکستان میں مسلسل دوسری سول حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر رہی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) کو بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایک وزیراعظم سے محروم ہونا پڑا‘ لیکن پانچ سالہ حکومتی میعاد پوری ہونے سے یقینا عوام کے سیاستدانوں کا حوصلہ بھی بڑھا ہے۔ قوم کو کسی بھی جانب سے ہونے والی چھوٹی بڑی خرابیوں کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔ الیکشن کی منزل تک آپہنچے تو ووٹ کی پرچی پر اعتماد کرنا چاہئے۔ عوام جس کو چاہیں اپنے ووٹ سے حکومت پر سرفراز کریں۔ سب کو عوام کا فیصلہ قبول ہوگا تاکہ سب مل کر ملک اور عوام کو درپیش مسائل کا حل کر سکیں۔
اب ایک بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہو گئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان خیبر پختونخوا بالخصوص پنجاب میں جوڑ پڑنے والا ہے۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کی ٹکٹوں کے خواہشمندوں کی بڑی تعداد سامنے آچکی ہے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے خواہشمندوں سے درخواست کے ساتھ بالترتیب ایک لاکھ روپے اور پچاس ہزار روپے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے بالترتیب پچاس ہزار روپے اور پچیس ہزار روپے طلب کئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے مخصوص نشستوں کیلئے ٹکٹ کے خواہشمندوں سے قومی اسمبلی کیلئے ایک لاکھ روپے اور صوبائی اسمبلی کیلئے 75 ہزار روپے طلب کئے ہیں۔ یوں ان دونوں جماعتوں نے عام سیاسی کارکن جس کا تعلق غریب یا سفید پوش طبقے سے ہے الیکشن کیلئے ٹکٹ کے حصول میں ناروا رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ گویا پیسے والے لوگ ہی ٹکٹ کی خواہش بھی کر سکیںگے جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کی طرف توجہ دیں۔
ملک کی پانچ اہم دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل‘ ایک مرتبہ پھر انتخابی میدان میں اتر رہا ہے۔ 13 مئی کو ان کا مینار پاکستان پر جلسہ عام قابل دید تھا۔ حاضری کے لحاظ سے بھی یہ جلسہ شاندار تھا۔ جلسہ گاہ میں جمعیت علماءاسلام (ف)‘ جماعت اسلامی‘ مرکزی جمعیت اہلحدیث‘ جمعیت علماءپاکستان نورانی کے کارکنوں نے ثابت کر دیا کہ قائدین ایک ہو جائیں تو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہشمند یکجان ہوکر میدان میں اترتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دینی سیاسی جماعتوں کے ملک بھر میں حامی موجود ہیں‘ تاہم ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی جتنی مسجدیں موجود ہیں‘ انتخابی سیاسی جماعتیں بھی قائم ہیں۔ بے شمار علماءکرام ایسے ہیں جو بیک وقت کئی کئی کشتیوں کے سوار ہیں۔ تھوک کے بھاﺅ سے قائم ہونے والی مختلف مسالک کی کاغذی تنظیموں کے باعث علماءکرام کاتشخص مجروح ہوتا رہا ہے۔
جہاں تک مینار پاکستان پر ایم ایم اے کے جلسہ¿ عام کا تعلق ہے اس نے سیاسی حلقوں میں اپنا نقش جما دیاہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم خیال جماعتیں عام انتخابات میں اشتراک عمل کرکے اپنے امیدوار میدان میں اتاردیں تاکہ سیاسی میدان میں صحت مند مقابلہ ہو سکے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی قیادت کا بھی امتحان ہے کہ وہ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیسی ورکنگ ریلیشن شپ بناتی ہیں۔ عام انتخابات تک تو سیاسی گرما گرم موجود رہتی ہے‘ لیکن تلخی کا عنصر کم از کم رہے تو پاکستان‘ پاکستانیوں اور یہاں کی لولی لنگڑی جمہوریت کیلئے نیک فال ہوگا۔