محاذآرائی کی سیاست سے جمہوریت اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو خطرہ ہے
مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس میں انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار اور انتخابی حکمت عملی کی تیاری
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے گزشتہ روز جاتی امراءمیں پارٹی کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم‘ مسلم لیگ (ن) کیخلاف کی جانیوالی کارروائیوں‘ نگران وزیراعظم اور آنیوالے انتخابات سمیت مسلم لیگ (ن) کے جاری ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پارٹی عہدیداروں کے ساتھ مشاورت کی۔ اجلاس میں میاں نوازشریف‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اس امر پر اتفاق کیا کہ اگر 2018ءکے انتخابات ہوگئے تو ان میں تمام سازشیوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینگے۔ میاں نوازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تمام تر توانائیاں مسلم لیگ (ن) کیخلاف استعمال کی جارہی ہیں مگر ہم انتخابات میں دھرنے دینے والوں کا دھڑن تختہ کردینگے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا نعرہ ”ووٹ کو عزت دو“ ہی ہوگا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس مشاورتی میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوبارہ اقتدار میں آکر پورے ملک کو یکساں ترقی کی راہ پر گامزن کرینگے۔ میاں شہبازشریف نے میٹنگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اداروں کے مابین محاذآرائی نہیں چاہتے۔ ماضی میں بھی اپنے خلاف مقدمات میں سرخرو ہوئے تھے‘ اب بھی ہونگے۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) کے قائدین کا ایک غیررسمی اجلاس 180۔ ایچ ماڈل ٹاﺅن لاہور میں منعقد ہوا جس میں پارٹی کی آئندہ حکمت عملی پر عملدرآمد کے حوالے سے اقدامات طے کئے گئے۔ اس اجلاس میں میاں نوازشریف نے کہا کہ الیکشن بھرپور طریقے سے لڑا جائیگا۔ ہم ماضی میں گھبرائے نہ اب میدان چھوڑیں گے۔ اجلاس میں پیر 21 مئی سے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور مختلف شہروں میں پارٹی کے پبلک جلسوں کا شیڈول طے کیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپنے پورے عرصہ¿ اقتدار کے دوران متعدد سیاسی بحرانوں‘ کٹھنائیوں‘ حکومت مخالف تحریکوں اور ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں اس پارٹی کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا نظر آتا رہا ہے اور اس کیلئے ”صبح گیا یا شام گیا“ والی پوزیشن بنی رہی ہے۔ اسکے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی میعاد کی تکمیل کا سفر اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے اور 2018ءکے انتخابات کے انعقاد کیلئے عبوری نگران حکومت کے قیام میں اب صرف 9 دن کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ اس تناظر میں انتخابات کے آئینی تقاضے کے مطابق مقررہ میعاد کے اندر انعقاد میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی اور قوم کی نظریں اب آئندہ انتخابات پر ہی لگی ہوئی ہیں تاکہ اسے اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے کا موقع مل سکے۔ یہ صورتحال اس حوالے سے اطمینان بخش ہے کہ جرنیلی آمر مشرف کی تاحیات اقتدار والی منصوبہ بندی اور سوچ کے دائرے سے کھینچ کر باہر لائی جانے والی سلطانی¿ جمہور گزشتہ دس سال سے تسلسل کے ساتھ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے اور اس عرصے میں آئینی میعاد کے اندر اب تیسرے عام انتخابات کی منزل قریب آرہی ہے جو درحقیقت جمہوریت کے ٹریک پر چڑھنے کے بعد مستحکم ہونے کی دلیل ہے۔ انتخابات ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے تحت سلطانی¿ جمہور کی منزل کیلئے راستے ہموار ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کو اپنی سابقہ یا موجودہ حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے آئندہ اقتدار کا مینڈیٹ لینے کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ اس کیلئے ہر جماعت نے اپنے اپنے منشور کے تحت عوام کے پاس جانا ہوتا ہے اور اس حوالے سے عوام ہی بہترین جج ہوتے ہیں کہ انہوں نے کس پارٹی کی قیادت کے سر پر تاج رکھنا ہے اور کس کو مسترد کرکے گھر بھجوانا ہے۔ اس مقصد کیلئے انتخابی سیاست میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ اور الزام تراشی بھی اسکے لوازمات میں شامل ہو جاتی ہے چنانچہ اسی تناظر میں محاذآرائی کی سیاست بھی ہمارے انتخابی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ ایسی سیاست تعمیری سوچ اور جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رواں رکھنے کے جذبے کے تحت تو قابل قبول ہو سکتی ہے مگر بلیم گیم کی بنیاد پر گرمائی گئی محاذآرائی کی سیاست میں ایسے عناصر کو دخل درمعقولات کا موقع ملنے کا امکان بہرصورت رہتا ہے جن کے جمہوریت کے بجائے ماورائے آئین و جمہوریت اقتدار کے ساتھ مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ماضی کے تلخ تجربات اس امر کے شاہد ہیں کہ ماورائے آئین اقدام والی جرنیلی آمریتوں کو سیاست دانوں کے بھیس میں موجود غیرجمہوری عناصر سے ہی سہارا اور تقویت حاصل ہوتی رہی ہے اور پھر وہ قومی سیاست‘ سیاست دانوں اور مجموعی طور پر منتخب جمہوری نظام کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے رہے۔ ماضی کے انہی تلخ تجربات کی بنیاد پر سلطانی¿ جمہور موجودہ دس سال کے عرصہ میں اپنا تسلسل برقرار رکھنے کے باوجود محلاتی سازشوں میں گھری نظر آتی رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو بھی اپنے سابقہ دور اقتدار میں ایسی سازشوں کا موقع بے موقع سامنا کرنا پڑا تاہم اس پارٹی کے قائد آصف علی زرداری صدر مملکت کی حیثیت سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرکے اپنی پارٹی کے اقتدار کو کسی ماورائے آئین اقدام والے جھٹکے سے محفوظ کرکے اپنی حکومت اور اسمبلیوں کی آئینی میعاد پایہ¿ تکمیل کو پہنچانے میں کامیاب ہوگئے البتہ اپنی حکومت کی ناقص کارکردگی اور اسکے باعث توانائی کے بحران سمیت عوام کے مسائل میں اضافہ ہونے کے کے نتیجہ میں وہ 2013ءکے انتخابات میں عوام سے دوبارہ اقتدار کا مینڈیٹ لینے میں کامیاب نہ ہوسکے جبکہ اس پارٹی کی سیاست میں بے عملی سے پیدا ہونیوالے خلاءسے عمران خاں کی تحریک انصاف نے فائدہ اٹھایا اور وہ 2013ءکے انتخابات کے نتیجہ میں ایک بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی۔ عوام نے ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیا جس کے مقابل پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی اور اسے صوبہ خیبر پی کے میں حکمرانی کا موقع بھی مل گیا۔ تاہم پانچ سال کے عرصہ میں اس پارٹی نے جس نوعیت کی سیاست کی اور مسلم لیگ (ن) کیلئے کوئی لمحہ بھی چین سے امور حکومت کی انجام دہی کیلئے ناممکن بنایا ‘اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہوا کہ اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے غیرجمہوری عناصر کو سلطانی¿ جمہور کیخلاف کسی ماورائے آئین اقدام کیلئے سازشیں پروان چڑھانے کا موقع دیا گیا ہے۔ انکی دھرنا سیاست اور حکومتی مشینری کو چلنے نہ دینے کے اقدامات و اعلانات غیرجمہوری عناصر ہی کو تقویت پہنچاتے نظر آتے رہے ہیں۔ تاہم میاں نوازشریف دوسری سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر حکومت اور پارلیمنٹ کو ان سازشوں سے بچائے رکھنے میں کامیاب ہوتے رہے البتہ پانامہ لیکس کیس میں الجھنے کے بعد انکے پاﺅں اکھڑنا شروع ہوگئے اور اسی دوران انکے اقتدار کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا تصور سامنے آیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت وزارت عظمیٰ اور پارٹی صدارت سے نااہل ہونے کے بعد اپنے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ سازشوں کو اجاگر کرنا شروع کیا جس کیلئے انکے اختیار کئے گئے سیاسی بیانیہ کو بھی عوام میں پذیرائی حاصل ہونے لگی چنانچہ اسی تناظر میں عدلیہ اور نیب کے اقدامات‘ کارروائیوں اور فیصلوں سے آئندہ انتخابات میں ان کا اور انکی پارٹی کا راستہ روکنے کا تاثر پیدا ہوا جسے میاں نوازشریف نے خلائی مخلوق سے منسوب کیا تو انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونا فطری امر تھا۔
اسی دوران میاں نوازشریف نے ایک قومی انگریزی اخبار کو انٹرویو دیکر ممبئی حملوں میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کے کردار کا تذکرہ کیا جس سے پاکستان کیخلاف بھارت کے موقف کو تقویت حاصل ہوئی تو اس سے سیاست میں اس حد تک تلخی اور کشیدگی کی راہ ہموار ہوگئی کہ اس کا ملبہ پورے جمہوری نظام پر گرتا نظر آیا اور سسٹم کی بساط لپیٹنے کے حوالے سے چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ میاں نوازشریف کے بیان کی پیدا کردہ تلخی کے اثرات ابھی تک موجود ہیں‘ اسکے باوجود جمہوریت کی عملداری میں کسی قسم کا رخنہ پیدا نہیں ہوا اور اب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے نگران وزیراعظم کیلئے کچھ نام بھی زیرگردش ہیں اور الیکشن کمیشن نے 2018ءکے انتخابات کا باضابطہ شیڈول بھی جاری کردیا ہے اس لئے اب مقررہ میعاد کے اندر انتخابات کے نہ ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں کے گزشتہ روز کے مشاورتی اجلاس میں یہ کہہ کر مقررہ میعاد کے اندر انتخابات کے انعقاد میں شک و شبہ کی راہ بھی نکال لی گئی ہے کہ اگر یہ انتخابات ہوگئے تو ہم سازشیوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینگے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے آج انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کرنے کے بجائے اپنے ایسے پارٹی منشور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو انتخابات میں اس کیلئے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا باعث بن سکتا ہو۔ اس کیلئے سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے میاں نوازشریف کے انٹرویو سے پارٹی کو پہنچنے والے اس نقصان کا ازالہ کرنا ہے جس کا عندیہ گزشتہ ہفتے اس پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں پارٹی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی کے تحفظات کے اظہار سے واضح طور پر دیا جاچکا ہے۔
اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب اس پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کے ازالہ کی کوششوں میں مصروف ہیں اور گزشتہ روز پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں بھی انہوں نے یہی عندیہ دیا ہے کہ وہ اداروں کے درمیان محاذآرائی نہیں چاہتے۔ تاہم پارٹی قائدمیاں نوازشریف متذکرہ انٹرویو کے حوالے سے اپنے موقف پر قائم رہے تو پھر آئندہ انتخابات میں شہبازشریف کیلئے بھی پارٹی کو سرخرو کرانا مشکل ہو جائیگا۔ آج ضرورت صرف پارٹی کے ایسے منشور کو اجاگر کرنے کی ہے جس میں عوام کیلئے انکے تمام مسائل کے حل اور ملک کی سلامتی کے حوالے سے ٹھوس کردار ادا کرنے کا پیغام موجود ہو۔ میاں نوازشریف ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ کے ساتھ اپنی پارٹی کو انتخابی میدان میں اتار رہے ہیں تو انہیں ملک اور قوم کی سلامتی کے حوالے سے ووٹر کے جذبات کی بھی پاسداری کرنا ہوگی بصورت دیگر انتخابات کا مقررہ وقت پر ہونا یا نہ ہونا انکی سیاست میں فی الواقع کوئی معنی نہیں رکھتا۔