دھڑا دھڑ خبریں چلی آ رہی ہیں کہ سیاستدان پھر لوٹا بنتے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن سے ممبران صوبائی اور وفاقی اسمبلی اور دوسرے معروف سیاستدان اپنی وفاداریاں بدل رہے ہیں۔ ایسے سیاسی لوگوں کو لوٹا کہتے ہیں۔ یہ کام الیکشن کے قریب ہوتا ہے۔ وہ اس سیاسی پارٹی میں جاتے ہیں جو اقتدار میں آنے والی ہو۔ کسی زمانے میں نون لیگ ایسی ہی جماعت تھی۔ اس جماعت کے پاس دو حکمران تو ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف نواز شریف نااہل ہونے کے بعد اپنی لیڈری چمکانے کے لیے سرگرم ہے۔ ہمیں عمران خان کو یہ درخواست کرنا ہے کہ وہ عام لوگوں کی توقعات پر پورا اتریں۔ اس سے زیادہ اب صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔
شیخ رشید نے کہا کہ ”نواز شریف شیخ مجیب الرحمن اور مریم نواز حسینہ واجد بنیں گی۔“ ہم شیخ صاحب سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر ان کی بات ایک سرخوشی طاری کر دیتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک جملہ ہے مگر اس طرح پاکستان کی بدقسمت تاریخ کی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔
اس سے پہلے بھی نواز شریف کی طرف سے ”جاگ پنجابی جاگ“ کا نعرہ گونجا تھا مگریہ گونج لوگوں کی پاکستان کے ساتھ محبت میں گم ہو گئی۔ پھر بھی شریف فیملی جیت گئی۔ اسی لیے تو یہ نعرہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ ”ووٹ کو عزت دو“ اس کے ساتھ یہ آواز بھی سنائی دی ”ووٹر کو عزت دو“ اس صورتحال کے پیچھے کوئی راز ہے کہ نواز شریف نااہل ہو کر سیاست میں پوری طرح موجود ہیں اور ایک افواہ یہ بھی ہے کہ پھر مسلم لیگ ن ہی آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ ن لیگ نہیں رہی کیونکہ نون والے نواز شریف نااہل ہو گئے ہیں۔ ایک نون لیگی کہہ رہا تھا کہ اب یہ مسلم لیگ شین ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ ش سے شہباز شریف بنتا ہے۔ اس سے شریف فیملی کی طرف سے بھی دھیان جاتا ہے مگر کیا یہ نواز شریف ہونے دے گا۔
اس کے ساتھ ایک خبر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف اور ق لیگ یعنی مسلم لیگ ق میں اعلیٰ سطح کا رابطہ ہوا ہے تو پھر پیپلز پارٹی کا کیا بنے گا۔ جبکہ بقول سیاسی دانشوروں کے کہ اب پارٹی تو پیپلز پارٹی کی ہے۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ مشیر خزانہ بلوچستان رقیہ ہاشمی مستعفی ہو گئی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی رکن اسمبلی نے ”بدتمیزی“ سے بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عہدہ نہیں عزت چاہیے۔ لوگوں کو دلچسپی یہ ہے کہ رکن اسمبلی نے کیا بدتمیزی کی تھی۔ بڑا منفرد اور انوکھا ملک پاکستان ہے۔ یہاں خزانہ خالی کیا جا چکا ہے مگر وزیر خزانہ موجود ہے۔ مگر سیاستدانوں کی سوئی عمران خان اور نواز شریف کے درمیان اٹکی ہوئی ہے۔
رانا ثنااللہ کہتے ہیں ان کا موضوع گفتگو عمران خان کی کوئی بات ہوتی ہے۔ رانا صاحب فرماتے ہیں۔ عمران ٹشو پیپر ہے۔ اس کے ساتھ متفق ہونے سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ ٹشو پیپر تو گندگی صاف کرنے کے کام آتا ہے تو گندگی کس کے پاس ہے؟
عمران خان نے اقتدار کے پہلے 100 دنوں کا ایجنڈا پیش کر دیا ہے۔ جیسے وہ اقتدار میں آ گیا ہو۔ اقتدار میں تو وہ آ گیا تھا جب اس نے سیاست شروع کی تھی۔ اب تک عمران خان نے جو بھی سوچا وہ پورا ہوا۔ کوئی پاکستانی یہ سوچ بھی سکتا ہے کہ پاکستان ورلڈ کپ جیتے گا۔
یہ عمران کا خواب تھا جسے تعبیر مل گئی۔ پھر شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے بھی لوگ یہی سوچتے تھے۔ یہ ”ناممکن“ ہسپتال بن گیا۔ کراچی اور پشاور میں بھی بن گیا مگر میں نے عمران خان سے کئی بار عرض کیا ان سے ملاقات میں بھی عرض کیا کہ وہ اپنے آبائی شہر اپنے حلقہ انتخاب میں بھی ایسا ہسپتال بنوائیں۔ اس پر اخراجات بھی کم آئیں گے۔ انہوں نے وعدہ کر لیا مگر ابھی تک ارادہ نہیں کیا۔
اب اگر پاکستان کے وزیراعظم ہونے کی بات ہوتی ہے تو ہمیں اس پر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر یہاں بیورو کریسی ٹھیک کام کر رہی ہوتی تو یہ خطہ جنت کی تصویر بن جاتا۔ میں نے ایک تحریر میں کہا تھا کہ بیورو کریسی کو میں براکریسی کہتا ہوں۔ اچھے لوگ بھی ہوں گے مگر یہ چنگا نہ کریسی یہ صرف براکریسی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ضلع کا ڈی سی اور ڈیپارٹمنٹ کا سیکرٹری اگر اچھے دل و دماغ کے ساتھ کام کریں تو انقلاب آ جائے۔
بیورو کریسی میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے بہت افسران میرے دوست ہیں۔ انہوں نے میری اس بات کو دوستانہ انداز میں لیا اور یہ بات صرف گونج کے رہ گئی۔ اور صورتحال وہی جو پہلے تھی۔
کچھ لوگ بیٹھے ہوتے تھے۔ وہاں نامور شاعر فیض احمد فیض بھی تھے۔ بحث چل پڑی کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ میرا ایمان تو یہ ہے کہ پاکستان ایسا ملک بنے گا جو دنیا میں ایک مثال ہو گا۔
وہاں موجود ایک شخص بولا کہ پاکستان خدانخواستہ بکھر جائے گا۔ دوسرا بولا کہ یہ خدانخواستہ ٹوٹ جائے گا۔ فیض حسب معمول خاموش بیٹھے تھے۔ ان سے گزارش کی گئی کہ آپ بھی کچھ کہیں۔ فیض نے فرمایا پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ملک اسی طرح چلتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭
ناز بٹ ایک اچھی شاعرہ ہیں۔ وہ ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہیں۔ وہ نوائے وقت میں کبھی کبھی کالم بھی لکھتی ہیں۔ دوایک بار ان کے بیٹے سلمان طارق کا کالم بھی شائع ہوا ہے۔
مگر ناز بٹ کی اصل پہچان ان کی شاعری ہے۔ تو پھر ان کی تھوڑی سی شاعری دیکھیے۔
تجھ کو سوچوں میں سو بسو ہو کر
میں تو بس رہ گئی ہوں تو ہو کر
یہ ترے لمس کا کرشمہ ہے
پھیل جاتی ہوں رنگ و بو ہو کر
آئینہ ہوں ترے وجود کا میں
آ کبھی دیکھ روبرو ہو کر
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024