آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں, بجٹ کے بعد انہیں ریگولیٹ کرنے کا نظام لائیں گے: اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں ہے مستقبل میں پانامہ لیکس جیسے معاملہ سے بچنے کے لیے آف شور جیسی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کا نظا م بجٹ کے بعد لا رہے ہیں ایس ای سی پی، ایف بی آر اور سٹیٹ بنک کی ذمہ داری ہے کہ وہ آف شور کمپنیوں پر کام کرے۔ سیاسی اثر و رسوخ سے قرضہ معاف کرانے والوں سے پیسے واپس لیں گے۔ حکومتی ٹی او آر کمشن میں قرضہ معاف کرانے کے حوالے سے ایک شق رکھی تھی کہ پبلک آفس ہولڈر نے اگر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے قرضہ معاف کرایا ہے تو کمشن اس کی ضرور جانچ پڑتال کرے۔ ٹی او آر کے لئے کمیٹی کا اعلان ایک دو روز میں کر دیا جائے گا۔ اتوار کو اسلام آباد میں آئی آئی بی ایل کے اثاثہ جات کی فروخت اور بنک کے رائٹ آف کیے گئے قرضوں کی ریکوری سے ڈیپازیٹرز کو ایک ارب دس کروڑ روپے کی ادائیگی کیلئے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ چیزیں اور ادارے ایک دن میں نہیں بنتے جس ایس ای سی پی کا 1999میں خواب دیکھا تھا وہ آج شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگر قوانین کمزور ہوں گے اور ان پر عمل درآمد نہیں ہو گا تو ہرسال گھپلے دیکھنے میں آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے ٹیکس گروتھ میں چھپن فیصد اضافہ کیا ہے۔ بجٹ خسارہ 8.8 سے کم کر کے 4.3 فیصد تک لائے ہیں زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہیں۔ مستقبل میں پانامہ لیکس جیسے معاملہ سے بچنے کے لیے آف شور جیسی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کا نظا م لا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمشن نے پاکستان کے قوانین سخت ہونے چاہئیں‘ قوانین پر عمل کرنے سے ہی ہم پائیدار ترقی کر سکتے ہیں‘ کسی بھی کاروبار میں فراڈ کرنے والے کیخلاف ادارہ ایکشن لے گا‘ اب کوئی سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے قرض معاف نہیں کرا سکے گا۔ عالمی ادارے پاکستان کی معیشت میں بہتری کا اعتراف کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت میں مزید ترقی کی صلاحیت موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بجٹ خسارے میں کمی لا رہے ہیں۔ کمپنیز بل 2016ءجلد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔