سنٹرل ایشیائ، جنوبی ایشیاء ہے اور اِس اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان کا سنٹرل ایشیاء کے دو ممالک کرغزستان اور تاجکستان جہاں سستی ہائیڈرو الیکٹرک پاور اُن ممالک کی ضروریات سے زیادہ پیدا ہورہی ہے، وہاں سے افغانستان کے راستے ہزار میگاواٹ بجلی پاکستان کو فراہم کرتا ہے کاسا ۔1000 ٹرانسمیشن لائن 1000 میگاواٹ بجلی کی ترسیل پشاور تک اور 300 میگاواٹ افغانستان تک پہنچانے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوگی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ افغانستان مستقبل قریب میں کاسا کی فراہم کردہ بجلی کیلئے ضرورت مند نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہوسکتا ہے وہ اپنا حصہ پاکستان کو فروخت کردے، دسمبر 2014 ء میں جب پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور کزغزستان کے نمائندے استنبول میں اکٹھے ہوئے اور انکے مابین بجلی کی ترسیل اور باہمی تجارتی منصوبوں کے متعلق ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور یہ طے پایا کہ مئی سے اکتوبر کے مہینوں میں تاجکستان اور کرغزستان اپنی گرمیوں کے موسم کے دوران پیدا ہونیوالی فالتو بجلی میں سے 1300 میگاواٹ پاکستان اور افغانستان کو برآمد کریگا۔ جس میں سے 1000 میگاواٹ کا حصہ پاکستان اور 300 میگاواٹ کا حصہ افغانستان کا ہوگا۔ پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت خرم غلام دستگیر خان نے اس کو ایک تاریخی معاہدہ قرار دیا۔ امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سنٹرل اور جنوبی ایشیاء فاطمہ ثمر نے کہا کہ یہ معاہدہ ان ممالک کے بجلی پیدا کرنیوالے گرڈ سٹیشنوں کو باہمی طور پر متصل کردیگا جس سے ان ممالک کی معیشتوں میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ مگر ڈپلومیٹ میگزین کے کیسے مائیکل نے اس کو حقیقت سے دور قرار دیا اور اس کو وقت اور سرمائے کا ضیاع قرار دیا اگرچہ بجلی برآمد کرنیوالے دونوں سنٹرل ایشیائی ممالک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ ہر حال میں اس قابل ہیں کہ چار ہزار گیگا بائٹ بجلی معتدل موسم میں اور 4434 گیگا بائٹ بارشوں کے موسم میں برآمد کر سکتے ہیں۔ جہاں تک تاجکستان کا تعلق ہے، وہاں پر سالانہ 527 بلین کلو واٹ بجلی ہائیڈرو پاور جنریشن سسٹم سے حاصل کی جاسکتی ہے اور تاجکستان ان ہائیڈرو پاور وسائل سے محض 280 بلین کلو واٹ یعنی 50 فیصد سے استفادہ کررہا ہے اور یہ بھی تمام سنٹرل ایشیاء کے بجلی استعمال سے تین گنا زیادہ ہے اور تاجکستان میں 95 فیصد بجلی کی پیداوار محض ہائیڈرو جنریشن کے 5 فیصد پوٹینشل سے حاصل ہوتی ہے۔ تاجکستان سنٹرل ایشیاء ریجن کے دو بڑے دریائوں آمو دریا اور سردریا کے سنگم پر واقع ہے اور پورے علاقے کے 60 فیصد پانی کے ذرائع اسکی ملکیت ہیں اور تاجکستان دنیا میں ہائیڈرو الیکٹریشن پوٹینشل رکھنے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔
اس منصوبے کے تحت تاجکستان 70 فیصد اور کرغزستان 30 فیصد گرمیوں میں پیدا ہونے والی بجلی پاکستان اور افغانستان کو برآمد کریگا۔ مگر کیسے مائیکل (Casey Michel) اپنے آرٹیکل میں یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ کرغزستان کو سردیوں میں 2.5 بلین کلو واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اس دوران قارقستان ترکمانستان اور روس سے بجلی درآمد کرنے پر مجبور ہوتا ہے لہٰذا کاسا پراجیکٹس کے کرتا دھرتا کیسے اس حقیقت کو نظر انداز کرسکتے ہیں کہ بجلی کے برآمد کنندہ ملک کو خود بجلی کی کمی کا سامنا رہتا ہے اس کے علاوہ کرغزستان اور تاجکستان، دونوں ممالک نے یہ حقیقت بار بار بتائی ہے کہ وہ تب کاسا کے گرڈ کے ساتھ منسلک ہوپائیں گے جب روگن ڈیم (جسے ورلڈ بنک دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے) کے کم از کم دو یونٹس اس میں شامل ہو نہیں جاتے۔ اسکے علاوہ ازبکستان جو تاجکستان اور کرغزستان دونوں سے ہائیڈرو بجلی درآمد کرتا ہے اس منصوبے کیخلاف ہے 2013 میں تاشقند سے ورلڈ بنک کو یہ خط لکھا گیا کہ ہائیڈرو انجینئرنگ کے کاسا 1000 کے منصوبے محض تاجک اور کرغز کے لئے ہیں، یہ خطے میں واٹر مینجمنٹ کے مسائل کو مزید خوفناک بنادیں گے۔ تاہم گزشتہ ہفتے کے شروع میں جب پاکستان میں پانامہ لیکس کا ہنگامہ برپا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے تاجکستان گئے اور نواز شریف سمیت چاروں ممالک کے لیڈران نے باقاعدہ طور پر CASA-1000 منصوبے کو اجتماعی طور پرلانچ کردیا۔ تاجکستان کے صدر ایمانولی رامون، کرغزستان کے وزیراعظم سرونائی اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے دارالحکومت سے 50 کلو میٹر دور ٹرسن زید شہرمیں گرینڈ پاور پرانسمیشن ٹاورکے سنہری بولٹس (boldn) کو سنہری رینچ (wrench) سے کس (Tight) کے افتتاح کیا۔ اس منصوبے کے ابتدائی تخمینے کے مطابق پاکستان کو 9.50 یو ایس سینٹ فی کلو واٹ پر بجلی 2035 تک ملتی رہے گی اور اس منصوبے کی تکمیل کا منصوبہ 2018ء تک ہے ایک اندازے کے مطابق اگلے دس سال میں پاکستان کی بجلی کی طلب 45000 میگاواٹ تک پہنچ جائیگی اور جب تک سی پیک کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں اس منصوبے کے تحت ہزار میگاواٹ پاکستان کے گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے کسی حد تک مد گار ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق کرغز ریپبلک اور تاجکستان سے ٹرانسمیشن لائن افغانستان کے راستے پاکستان پہنچے گی۔ یہ 750 کلو میٹر ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ (DC) سپلائی میں تین اسٹیشن سنگ ٹوڈا (Cangtuda) کابل اور پشاور ہونگے اور 477 کلو میٹر (Ac)کرنٹ سہولت کرغزستان کے شہر ڈٹکا (Datka) سے تاجکستان کے شہر خوجنڈ (khoujand) پہنچے گی۔ اس منصوبے پر 1.7 ارب ڈالر اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا اور پاکستان کیلئے اسکے اخراجات کا تخمیہ 232 ملین ڈالرز لگایا گیا ہے اس کیلئے ورلڈ بنک نے 120 ملین ڈالرز، اسلامک ترقیاتی بنک نے 35 ملین ڈالرز اور 17 ملین ڈالرز چند ڈونرز نے فراہم کردئیے ہیں اور ابھی پاکستان کو اپنے حصے کی ٹرانسمیشن لائن کی تکمیل کیلئے 95 ملین ڈالرز مزید درکار ہیں اور اس گیپ کو پر کرنے کیلئے ورلڈ بنک نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ 1000 کی ٹرانسمیشن لائنز کی لمبائی کا اندازہ 750 کلو میٹر لگایا گیاہے جسکا 16 فیصد تاجکستان 75 فیصد افغانستان اور 9 فیصد پاکستان سے گزرے گا۔
ورلڈ بنک کے ماہرین کے مطابق یہ ایک قابل عمل منصوبہ ہے اور سنٹرل ایشیاء کے دوسرے ممالک ترکمانستان، ازبکستان، قازقستان اور رشین فیڈریشن بھی دستیاب ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے اس منصوبے میں شامل ہوسکتے ہیں اور وہ ممالک جو کاسا کے ممبرز نہیں ہیں 1.5 سینٹ فی یونٹ پر اپنی فالتو بجلی اس میں ڈال سکتے ہیں۔ اگر کاسا 1000 منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے یہ توانائی کے شعبے میں سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان باہمی تجارتی تعلقات کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوگا اور اس سے منسلک ممالک کو معاشی فوائد حاصل ہونگے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38