حضرت علی مرتضی شیر خداؓ تحریک اسلامی کے عظیم قائد‘ نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفےؐ کے انتہائی معتبر ساتھی‘ جاں نثار مصطفیؐ اور داماد رسول تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے۔
حضرت علیؓ کی صلب سے نبی کی ذریت
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب ؓکی صلب سے چلے گی۔(۱۔ المعجم الکبیر لطبرانی، ۳:۴۴،ح: ۰۳۶۲
حضرت علیؓ نبیؐ کے قائم مقام
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے حضرت علیؓکو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسولؐ آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔(۔ صحیح مسلم‘کتاب فضائل الصحابہ‘ من فضائل علی بن ابی طالبؓ ) حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ اصحاب رسولؐ میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی (کے صحن) کی طرف کھلتے تھے ایک دن حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے‘ راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرمؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا :حمد و ثناء کے بعد فرمایا مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا ہوں۔(المستدرک للحاکم) حضورؐ نے فرمایا کہ میں وہی فیصلے کرتا ہوں جن کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ جب کسی پر غسل واجب ہو گا اور وہ غسل کے لئے گھر سے نکلے گا تو ایسی حالت میں مسجد نبوی میں قدم رکھے گا اور مسجد کا تقدس مجروح ہو گا‘ غسل واجب ہو تو صرف دو افراد مسجد میں قدم رکھ سکتے ہیں ایک محمد مصطفیؐ اور دوسرے علی مرتضی ؓ۔ حدیث پاک میں آتا ہے:حضرت ابو سعید حذری روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا اے علی میرے اور تمہارے سوا کسی کے لئے جائز نہیں کہ اس مسجد (نبوی) میں حالت جنابت میںقدم رکھے۔ یہ اس لئے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا حضور نبی رحمتؐ کے جسم اطہر اور روح اقدس سے ظاہری بھی اور باطنی بھی ایک خاص تعلق قائم ہو چکا تھا۔
علی کرم اللہ وجہہ شہر علم و حکمت کا دروازہ
ایک حدیث عام ہے کہ تاجدار کائنات حضور رحمت عالمؐ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے:حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔(المعجم الکبیر لطبرانی‘ ۱۱:۵۵) اسی طرح ایک روایت ہے کہ:حضرت علی ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔( جامع الترمذی‘ ۵:۷۳۶‘ کتاب المناقب باب ۱۲)
علیؓ کا ذکر عبادت ہے
اصحاب رسول اخوت و محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے تھے‘ یہ عظیم انسان حضور کے براہ راست تربیت یافتہ تھے ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل خود معلم اعظم حضور سرور کونینؐ نے فرمائی تھی‘ حکمت اور دانائی حضورؐکے صحابہ کرام کے گھر کی باندی تھی ‘ ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے رگ و پے میں موجزن تھا۔ مواخات مدینہ کی فضا سے اصحاب رسول کبھی باہر نہ آ سکے۔ اعتماد اور احترام کے سرچشمے سب کی روحوں کو سیراب کر رہے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا حضرت علیؓ کا ذکر عبادت ہے۔(فردوس الاخبار للدیلمی‘ کنزالعمال)گھر میں جب تاجدار کائناتؐ اور حضرت عائشہؓ کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا‘ فرمان رسولؐسن کرحضرت عائشہ ؓکا بلا کم و کاست فرمان رسولؐ نقل کر دینا حضرت علی ؓ کی فضیلت کااقرار ہے۔اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ ہی روایت کرتی ہیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علیؓ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرمؐ سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔(الصواعق المحرقہ‘ ۷۷۱)
اصحاب بدر کی گواہی
روایات میں مذکور ہے کہ ان تیس صحابہ میں اصحاب بدر بھی موجود تھے‘ غزوہ بدر میں شریک ہونے والوں نے بھی گواہی دی کہ حضورؐ نے فرمایا تھا اور ہم نے سنا تھا اور دیکھا کہ حضورؐ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا اور ہم سب سے کہا تھا کہ مسلمانو! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہوں ؟صحابہ کرام نے عرض کیا سچ فرمایا یا رسول اللہؐ آپ نے‘ آپ ہم سب کی جانوں کے بھی قریب تر ہیں‘ فرمایا مجھے عزیز رکھنے والو سنو! میں اس کا عزیز ہوں جو علی کو عزیز رکھتا ہے جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے‘ اے مالک! تو بھی اس کا ولی بن جا جو علی کو ولی جانے۔جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفیؐ کا منکر ہے‘ جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض مصطفیؐ کا بھی منکر ہے جو نسبت علی کا منکر ہے‘ وہ نسبت مصطفی ؐکا منکر ہے‘ جو قربت علی کا باغی ہے وہ قربت رسولؐکا باغی ہے ‘جو حب علی کا باغی ہے وہ حب مصطفیؐکا بھی باغی ہے اور جو مصطفی ؐکا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔ فرمایا رسول محتشم نے:حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا۔ آپ ؐ کا ارشاد مبارک ہے جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی ‘جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔(مجمع الزوائد‘ ۹:۹۰۱)
مولائے کائنات علی کرم اللہ وجہہ
Mar 22, 2025