دہشت گردی کے خلاف قوم متحد یا منتشر ؟

Mar 22, 2025

فضل حسین اعوان....شفق

دہشت گردی کے خلاف بطور قوم کیا ہم متحد ہیں؟ اس کا جواب’نہیں‘ کی صورت میں دکھتا ہے۔ اگر دہشت گردی کے خاتمے کے کاز اور مشن پر قوم متحد نہیں ہوگی تو نہ اس کا مقابلہ ہوسکتا ہے نہ خاتمہ ممکن ہے۔ یہ تو طے ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ پاکستان، ٹھکانہ افغانستان اور فنانسر ہندوستان ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارے اقدامات عملی طور پر کم ہیں جبکہ زبانی جمع خرچ زیادہ ہے۔ آج دہشت گردی کے خلاف2014ء کی طرح ہی کی حکمت عملی اور عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔ سانحہ جعفر ایکسپریس اے پی ایس پر دہشت گردی سے کم سنگین نوعیت کا نہیں ہے۔ اس دور میں فوری طور پر اے پی سی بلائی گئی۔ تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دھرنا جمائے ہوئے تھے۔ عمران خان نے دھرنا ختم کیا۔ قومی سطح پر لائحہ عمل طے ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان تشکیل پایا۔ ضربِ عضب آپریشن لانچ کیا گیا جوکامیابی سے ہمکنار ہوا۔دہشت گردوں کی واقعتا کمر توڑ کر رکھ دی گئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتی ہیں۔ اب دہشت گردی جس طرح سے پھر عود کر آئی ہے۔اس کی ذمہ داری، کریڈٹ لینے والی پارٹیاں ایک دوسرے پر ڈالتی ہیں۔اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کہا جاسکتا ہے۔ سیاسی سرکس چلتی رہتی ہے۔آج ضرورت دہشت گردی کے خاتمے اوردہشت گردوں کا سر کچلنے کی ہے۔ ٹرین ہائی جیکنگ 11مارچ کو ہوئی۔ اس کے فوری بعد اے پی سی بلانے کی ضرورت تھی جبکہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہائی جیکروں قبضے سے ٹرین چھڑانے کے اگلے روز نہیں بلکہ اگلے پہر طلب کیا جاتا۔تین روز بعد وزیراعظم کی طرف سے اے پی سی بلانے کا اعلان ہوا مگر کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ ایک آدھ دن کی باز گشت کے بعد اے پی سی کا تذکرہ معدوم ہو گیا۔ اس کے شاید متبادل میں قومی سلامتی کی پار لیمانی کمیٹی کا اجلاس 18 مارچ طلب کر لیا گیا۔
تحریک انصاف نے سانحہ اے پی ایس کے موقع پر غیر مشروط طور پر دھرناختم کر دیا تھا۔ اب جبکہ وزیراعظم نے اے پی سی طلب کی تو پی ٹی آئی نے اس میں عمران خان کی جیل سے پیرول پر لانے کا مطالبہ کر دیا۔ عمران خان کو جب سے جیل پہنچایا گیا ،ان کو تو عدالت تک نہیں لایا گیا۔ اے پی سی میں کیسے لا بٹھایا جاتا۔ حکومت نے غالباً اے پی سی کے بجائے پار لیمانی کمیٹی کا اجلاس بلا لیا جس میں عسکری قیادت کے ساتھ متعلقہ سٹیک ہولڈر اور پارلیمنٹیرینز شریک ہوئے۔اس میں شرکت کے لیے تحریک انصاف نے سولہ پارلیمنٹیرینز کے ناموں کی لسٹ جاری کردی۔ ساتھ اپنی شرکت کو جیل میں عمران خان سے ملاقات سے مشروط کر دیا۔ ملاقات نہ ہوسکی تو پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کر دیا۔ ویسے اجلاس میں نواز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی بھی شریک نہیں ہوئے۔عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو منظر نامہ مختلف ہوتا۔
جس شدت اور سنگینی کی یہ دہشت گردی ہوئی ہے بادی النظر میں سیاسی انتظامیہ نے اس کی اتنی تپش محسوس نہیں کی ورنہ وزیر اعظم کمیٹی کے اجلاس کے دوسرے روز سعودی عرب کے دورے پرنہ پہنچ چکے ہوتے۔ ان کی طرف سے اجلاس دوران وہی کچھ کہا گیا جو روایتی طور پر کوئی بھی وزیراعظم کہتا مگر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حالات کی درست تصویر پیش کرتے ہوئے حل بھی بتادیا۔ پہلے وزیر اعظم کی تقریر کے اقتباس پر نظر ڈاتے ہیں:دہشت گردی ملک کے لیے ناسور بن گئی ہے۔ دہشت گردی کی پاکستان کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں۔ ہم نے ملک کو دہشت گردی سے مکمل پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ دہشت گردی کو ہر صورت شکست دیں گے۔ بعینہٖ یہی الفاظ کوئٹہ میں صدر آصف علی زرداری کی طرف سے امن و امان کے حوالے سے بلائے گئے اجلاس سے خطاب کے دوران دہرائے گئے۔
جنرل عاصم منیر کی طرف سے اپنے خطاب میں کہا گیا:ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی تحریک نہیں، کوئی شخصیت نہیں۔ یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء کی جنگ ہے، ہم کو بہتر گورننس اور مملکت پاکستان کوہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک ایک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے۔ ہم گورننس کے گیپس (خلا) کو کب تک افوج پاکستان اور شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ علماء سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ہم گورننس کے گیپس کو کب تک شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ گورننس پر سوالیہ نشان ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے صورتحال کو سلجھانے کی کوشش کی یا مزید الجھا دیا۔وہ کہتے ہیں:متعدد بار اپنی تقاریر میں کہہ چکا ہوں کہ یا تو میرا استاد شہید ہے یا اس کو مارنے والا مجاہد، دونوں باتیں ایک ساتھ درست نہیں ہو سکتیں۔ مگر میں اپنے استاد کو شہید کہوں گا۔مولانا نے جو کہا ،خدا نہ کرے سمجھا کرے کوئی۔مگر جن کے سمجھنے کی بات تھی انھیں سمجھ آگئی ہوگی کہ فتنۂ خوارج کے حوالے سے مولانا کا نقطہ نظر کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی سنتے اور سر دھنتے رہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوسرے روز دھماکہ خیز بیان داغ دیا: خیبر پختونخوا میں کسی طور آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔آپریشن کا فائدہ نہیں۔ اس بیان کے بعد کچھ حکومتی بزرجمہروں نے آپریشن کی تردید کی ہے مگر جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ کی سٹیٹ منٹ کسی ابہام کے بغیر موجود ہے۔
لگتا ہے گنڈاپور نے ہارڈ سٹیٹ کی تجویز پر عمران خان کی رائے کو ترجیح دی ہے۔ وہ بھی آپریشن کی مخالفت کرتے اور بات چیت پر زور دیتے ہیں۔ مولا نا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔ مگر ہارڈ سٹیٹ کی نوبت ہی سافٹ سٹیٹ کی ناکامی کے بعد آئی ہے۔ گنڈا پور جو کچھ اجلاس کے بعد کہہ رہے ہیں، وہی کچھ اجلاس کے دوران کہتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ قصہ مختصر سافٹ سٹیٹ کا آپشن بھی سرے سے ختم نہ کیا جائے۔جہاں ہارڈسٹیٹ ناگزیر ہو وہاں اسی کو بروئے کار لایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں کے لیے قومی دھارے میں شامل ہونے کا دروازہ بھی کھلا رکھا جائے۔

مزیدخبریں