ادب کی کھوئی ہوئی روح اور ناصر کاظمی کا لازوال سحر

Mar 22, 2025

نسیم احمد




اردو ادب کا حقیقی حسن، جو ناصر کاظمی جیسے شاعروں کی تخلیقات میں جھلکتا تھا، آج کے نئے لکھاریوں کی تحریروں میں کم ہی نظر آتا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے ادب کو آسان رسائی تو دی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گہرائی اور وسعت کی وہ روح بھی چھین لی جو بڑے لکھاریوں کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔
ناصر کاظمی، جن کی شاعری سادگی میں گہرائی، سوز میں تاثیر، اور الفاظ میں ایک عجیب سا جادو رکھتی تھی، آج کے بیشتر لکھاریوں کے لیے ایک اجنبی نام بنتا جا رہا ہے۔ ان کی شاعری رات کی تاریکی میں کھلنے والے وہ رنگ ہیں، جو تبھی سمجھ میں آتے ہیں جب انسان خود کسی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہو۔
ناصر کاظمی کو پڑھنے کے لیے ایک خاص کیفیت درکار ہوتی ہے، وہی کیفیت جس میں امیر خسرو کے سروں کی گونج سنائی دیتی ہے، جس میں رات کے سناٹے بولتے ہیں، جس میں خاموشی گہرے معنی رکھتی ہے۔ وہی کیفیت جو آج کے جدید لکھاریوں میں عنقا ہو چکی ہے، کیونکہ وہ ادب کو صرف الفاظ اور جملوں کا کھیل سمجھ بیٹھے ہیں، اس کی اصل روح سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ زوال کیوں آیا؟ بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج کے لکھنے والے تحقیق سے زیادہ انٹرنیٹ کے سہارے پر ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ چند وائرل تحریریں لکھ کر، سوشل میڈیا پر کچھ داد سمیٹ کر، اور چند فین فالوونگ بنا کر وہ حقیقی ادیب بن گئے ہیں۔ حالانکہ اردو ادب کے عظیم ناموں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تحریریں زندگی بھر کے مشاہدے، ریاضت اور داخلی کیفیات کا نتیجہ تھیں۔
ناصر کاظمی کی شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ ایک ایسا تجربہ تھا جو پڑھنے والے کو اپنی دنیا سے نکال کر کسی اور جہان میں لے جاتا تھا۔
’’رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں‘‘
یہ صرف دو مصرعے نہیں، بلکہ بے قراری کی ایک مکمل داستان ہے۔ آج کے جدید لکھاریوں کے لیے شاید یہ محض سادہ الفاظ ہوں، لیکن ایک حساس قاری کے لیے یہ الفاظ رات بھر کی بے چینی، زندگی کی تھکن اور سکون کی تلاش کی وہ کہانی سناتے ہیں جو الفاظ سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز ہے۔
آج کے دور میں لکھاریوں کے پاس تمام سہولتیں موجود ہیں، لائبریریوں کے بجائے وکی پیڈیا، تحقیق کے بجائے ریڈی میڈ تجزیے، اور مطالعے کے بجائے یوٹیوب کی ویڈیوز۔ مگر یہی آسانیاں ان کے لکھے ہوئے الفاظ سے وہ روح چھین رہی ہیں جو ناصر کاظمی جیسے شاعروں کے ہاں نظر آتی تھی۔
ادب محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ محسوسات اور تجربات کا عکس ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں جو جادو تھا، جو ویرانی کا حسن تھا، جو سناٹے کی زبان تھی، وہ آج کے جدید شاعروں اور نثرنگاروں کی تحریروں میں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کو صرف ٹرینڈز کے مطابق نہیں، بلکہ اس کی اصل روح کو سمجھ کر لکھا جائے، تاکہ وہ کیفیت واپس لائی جا سکے جو ناصر کاظمی کے ایک ایک لفظ میں چھپی ہوتی تھی۔
"سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی"
آج کے لکھاریوں کو یہ کھڑکی کھلی رکھنی ہوگی، 
ورنہ اردو ادب کا سحر بھی کہیں کھو جائے گا۔

مزیدخبریں