
تحریر و تحقیق۔ *محمد شکیل بھنڈر*
جدید جمہوری نظام نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو یہ باور کرا دیا تھا کہ ہندوستان میں ہندو اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر برصغیر کی دوسری اقوام پر ہمشیہ حکومت کرتے رہیں گے۔ 1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں کانگریسی اقتدار کے ڈھائی سالہ دور نے مسلمانوں پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ہندو اکثریتی راج میں مسلمانوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائیگااور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہاں مسلمانوں کی حثیت کیا ہو گی۔
دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں کی جنگی حکمت عملی سے اختلاف کی بناء پر نومبر 1939ء میں کانگریسی ہندؤ وزارتوں سے مستعفیٰ ہو گے۔ " کانگریسی وزارتوں کے مستعفی ہونے کی وجہ سے برطانوی حکومت کا جھکاؤ مسلم لیگ کی طرف ہو گیا تھا۔ اس ماحول میں مسلم لیگ نے قائد اعظم کی صدارت میں علامہ اقبال کے خواب (1930) کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے *مارچ 1940ئ میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہند کی قرارداد منظور کی*۔"
*قرارداد پاکستان 1940ء *
"23 مارچ 1940ء کے تاریخی دن منٹو پارک میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک لاکھ سے زائد شرکاء موجود تھے یہ مسلم لیگ کا ایک کھلا عام اجلاس تھا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح فرما رہے تھے اس اجلاس میں بنگال کے وزیر اعلیٰ شیر بنگال مولوی فضل الحق نے تاریخی قرارداد پیش کی" اس قرارداد میں 1935ء کے دستور کو ناقابل عمل قرار دے کر رد کر دیا گیا۔ مسلم ہندوستان اس وقت تک مطمئن نہ ہو سکے گا جب تک پورے دستوری خاکہ پر ازسرنو غور نہ کیا جائے اور تاوقتیکہ اس کی بابت مسلمانوں کی رضا مندی اور توثیق حاصل نہ ہو جائے کوئی غور کردہ خاکہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس قرارداد میں قرار پایا کہ کل ہند مسلم لیگ کے اجلاس کی یہ رائے ہے کہ کوئی دستوری خاکہ اس ملک میں قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہو گا۔ جب تک خاکہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں کے مطابق مرتب نہ کیا جائے یعنی جغرافیائی اعتبار سے متصلہ علاقے الگ خطے بنا دئیے جائیں اور جو علاقائی ترمیمیں ضروری سمجھی جائیں کر لی جائیں تاکہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے اکثریت ہے ان کو یکجا کر کے ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جن کے اجزائے ترکیبی خود مختار اور مقتدر ہوں۔
"شیر بنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ اس تاریخی قرارداد کی تائید چوہدری خلیق الزماں ، قاضی محمد عیسیٰ ، مولانا ظفر علی خان ، نواب اسماعیل خان ، حاجی سر عبداللہ ہارون ، آئی آئی چندریگر سردار اورنگزیب خان ، ڈاکٹر محمد عالم ، سید عبدالروف ، مولانا عبد الحامد بدایونی ، سید ذاکر علی ، بیگم مولانا محمد علی جوہر اور عبدالمجید خان نے کی"
*قرارداد پاکستان پر مخالفت*
23 مارچ 1940ء کے مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں اس وقت اگرچہ پاکستان کا لفظ موجود نہیں تھا مگر اس قرارداد کے مخالفین نے اس کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بیگم مولانا محمد علی جوہر نے قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دیا تو کانگریس اور ہندؤ اخبارات نے اس پر خوب تنقید اور طنز کی اور اس نام کو پریس میں خوب اچھالا۔ ان کا مقصد تو طنز کرنا تھا مگر یہ نام " *قرارداد پاکستان*" جلد ہی زبان زد خاص و عام ہو گیا۔ "قرارداد پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے گاندھی اور راج گوپال اچاریہ نے کہا کہ مسلمانوں کی قرارداد لاہور ہندوستان کی ایک زندہ جان کو چیر پھاڑ دینے کے مترادف ہے اس کا مطلب یہ ہے مسلم لیگ ایک جسم کو دو حصوں میں کاٹ دینا چاہتی ہے"
گاندھی اور راج گوپال اچاریہ کی اس عجیب منطق پر قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیتے ہوئے فرمایا "ہندوستان تو قدرتی طور پر پہلے ہی سے تقسیم شدہ ہے یہاں سے وہ ملک جسے ہم دو ٹکڑے کر رہے ہیں کہاں ہے وہ قوم جسے ہم پارہ پارہ کر رہے ہیں میں کہتا ہوں کہ کوئی ہندوستانی قوم یا مرکزی حکومت موجود ہی نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ لوگ اس قدرتی اور جغرافیائی تقسیم کے باوجود واویلا کر رہے ہیں ہندوستانی کوئی ایک قوم نہیں ہیں بلکہ یہ مختلف ذاتوں کا ایک گڑھ ہے"
اس کے بعد قائد اعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اتحاد اور مقصد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا " لیکن مجھے اب یہ یقین ہے کہ اس مسئلے کی خاطر مسلمان اندریں حالات ہر طرح کی اندرونی اور بیرونی صورت حال اور مشکل کا مقابلہ کرنے کی غرض سے پوری طرح تیار ہیں اس سے ہمارا مقصد کسی دوسری قوم کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ ہم تو صرف اپنا تحفظ چاہتے ہیں ہم اس ملک میں وقار اور عزت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ہم اپنی زندگی ایک آزاد قوم کی طرح بسر کرنے کی خواہش مند ہیں لہذا ہمارے لیے اسلام کی آزادی اور ہندوستان کی آزادی ہی مقدم ہے۔ "
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے حصول کی خاطر کوششیں اور تیز کر دیں اور ہندوستان کے دورے کرنے شروع کر دے۔ اس سلسلے میں آپ نے 8 مارچ 1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کا دورہ کیا اس موقع پر آپ نے مسلم طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا " پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندؤ مسلمان ہوا تھا حالانکہ اس وقت یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی پہلی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے نہ وطن ، نہ نسل۔ جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا بلکہ ایک جدا گانہ قوم کا فرد ہو گیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔ "
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے حصول کے لیے اپنے دوروں کا سلسلہ جاری رکھا اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک قوم بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو بتایا جب تک وہ ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے نہیں ہوں گے تب تک انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو گی اسی سلسلے میں 10 اکتوبر 1945ء کو میکموہن پارک کوئٹہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا " پاکستان میں ایک قوم ہو گی اور وہ ہو گی پاکستانی قوم نہ کوئی پٹھان ہو گا نہ کوئی پنجابی نہ بلوچ نہ سندھی نہ بنگالی۔ پاکستان میں سب پاکستانی ہوں گے۔ "
قائد اعظم کی قیادت میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمانوں نے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حصول کی خاطر اپنی کوششیں تیز کر دیں اور اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے دوسرے رہنماؤں نے قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ آخر کار *14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آ گیا* اس کے بعد ملک خداداد کی ترقی کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے سنہری اصول بتائے کہ ان اصولوں کو اپنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جا? اسی سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے 17 اپریل 1948ء میں گورنمنٹ ہاوس میں قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا " میں نے اب تک جو حقیر خدمات انجام دی ہیں وہ اسلام کے ایک ادنی خادم کی حیثیت سے سر انجام دی ہیں۔ میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ میرے اپنے فرائض کی تکمیل تھی۔ میں حتی الامکان اپنی قوم کی خدمت میں کوشاں رہا ہوں اور رہوں گا۔ میری انتہائی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد اور یگانگت کے رشتے میں منسلک کروں ، مجھے اس مقصد میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب کیا۔ اس اتحاد اور یک جہتی کا نتیجہ پاکستان ہے۔ اس شاندار اور عظیم الشان پاکستان کی تعمیر اور استحکام کا کام ابھی ہماری کوششوں کا محتاج ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی اس بات کا احساس ہو گا کہ حصول پاکستان کی جدو جہد کے لیے جو اتحاد اور یک جہتی درکار تھی اب اس سے بھی زیادہ کوشش تعمیر پاکستان کے لیے مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پرانی کہاوت ہماری مشعل راہ ہونی چاہیے۔ اتحاد میں قوت اور نفاق میں تباہی ہے۔
مجھے امید ہے جب میرا یہ مضمون قرارداد پاکستان کے حوالے سے 23 مارچ 2023ء کو آپ کے سامنے پیش کیا جائیگا تو رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہو گا کیونکہ آج سے ساڑھے پچہتر سال قبل پیارا پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو بھی رمضان المبارک کا مہینہ تھا، اللہ پاک سے دعا ہے کہ رمضان المبارک اور اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ملک خداداد کو امن کا گہوارہ بنا دے اور بلا تفریق رنگ و نسل پیارے وطن میں بسنے والوں پر اپنے خصوصی رحمت نازل فرما کر مشکلات کو ختم کر دے۔
اب جب کہ پاکستان کو وجود میں پونی صدی گزر چکی ہے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں من حصل معاشرہ ، من حصل قوم اور من حصل ریاست اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا اور اگر ہم اس خطے اور دنیا میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو اقبال کی خودی اور قائد کے فرمودات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک خداداد کی ترقی کے لیے بحثیت فرد ، بحیثیت معاشرہ اور بحیثیت ریاست اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔