بدھ، 29 شعبان المعظم، 1444ھ، 22 مارچ 2023ئ

دنیا کی خوش باش قوموں کی فہرست میں پاکستان نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا
اس بے فکری نے ہر حال میں ہنستے مسکراتے رہنے کی عادت نے بد سے بدترین حالات میں بھی ہمارا مورال بلند رکھا ہے ورنہ ہم کب کے مر گئے ہوتے۔ ہمارا دین بھی ہمیں اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا درس دیتا ہے۔ ہمارے بڑوں نے بھی ہمیں
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ زندگی پڑی ہے ابھی
کا درس دیا جس کی وجہ سے ہم پاکستانی ہر قدم پر مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی روایتی خوش دلی قائم رکھتے ہیں‘ آنسو ضبط کر کے چہرے پر مسکراہٹیں سجائے رکھتے ہیں۔ باقی آسودہ حال ممالک میں اگر وہاں کے شہری خوش باش ہیں تو یہ کوئی کمال نہیں‘ آسودگی اطمینان بھری مسکراہٹ چہروں پر بکھیر دیتی ہے۔ اصل حقیقی خوشی تو یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے غم سینے میں چھپائے ایک دوسرے کے ساتھ ہنس کر مسکرا کر بات کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی دل جوئی کرتے ہیں یوں سچ کہیں تو غم کو شکست دیتے ہیں۔
یہی ہمارا کمال ہے جس کو کوئی زوال نہیں۔ اب یہی دیکھیں اس فہرست میں فن لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ خوش باش ملک ہے گزشتہ 6 سالوں سے وہ اس پوزیشن پر موجود ہے۔ دوسرے نمبر پر ڈنمارک اور تیسرے پر سوئٹزرلینڈ ہے۔ ہمیں اس پر کوئی شکوہ نہیں کہ ہم 103 نمبر پر ہیں۔ ہم اس پر خوش ہیں۔ اس فہرست میںب ھارت ہمارا ازلی رقیب ابھی تک ہم سے پیچھے ہے۔ یہی خوشی کی بات ہمیں مطمئن کرتی ہے وہ تو ہم سے پیچھے ہے‘ نیچے ہے۔ روایت ہے کہ ”مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے“ تو پھر تاخیر کیوں کنجوسی کیسی؟ آیئے ہم سب ہر طرف حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں مسکراہٹیں بکھیر کر دوسروں کو بھی مسکرانے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ بھی کچھ دیر کے لئے اپنے غم بھول کر ہنستے مسکراتے نظر آئیں۔ خندہ روی اور خندہ پیشانی والوں کو سب تادیر یاد کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تاریکی میں روشنی کی کرن بن کر چمکتے ہیں جیسے سیاہ رات میں آسمان پر ستارے چمکتے ہیں اور بھلے لگتے ہیں۔
٭....٭....٭
طالبان اہلکاروں کو سرکاری نوکری سے اہلخانہ کو برطرف کرنے کا حکم
اختلافات اپنی جگہ، مگر اچھے کاموں کو سراہنا ضروری ہوتا ہے۔ دنیا لاکھ اختلافات کے باوجود افغان طالبان حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرے گی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں معلوم ہو گا کہ اقربا پروری‘ ناانصافی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہر بااثر شخصیت چاہتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر تعینات کرے تاکہ اس کا حلقہ اثر قائم رہے۔ اسی لئے موروثی سیاست کی ملوکیت کی مذہبی ہو یا سیاسی میدان میں ہمارا مذہب بھی پسند نہیں کرتا۔ اب افغان طالبان کی حکومت نے طالبان اہلکاروں یعنی دوسرے لفظوں میں پارٹی کے عہدیداروں کے بھائی‘ بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کو سرکاری نوکریوں سے برطرف کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ خدا کرے ایسا ہمارے ہاں بھی ہو تو مزہ آ جائے۔ ہمارے ہاں تو ہر سرکار کے کرتا دھرتا¶ں کے مامے چاچے‘ چمچے اور کڑچھے تک سفارش کی بنیاد پر میرٹ اور انصاف کا خون کر کے تعینات ہوتے ہیں پھر اس کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی اور یہ کھٹمل اور جونکیں عوام کا خون چوس چوس خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ جہاں دیکھیں کسی کا ماما کسی کا بھائی کسی کا کزن کسی کا تایا سرکاری نوکریوں کی شاخوں پر چمگاڈر بن کر لٹک رہے ہوتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ طالبان کے فیصلے کو مشعل راہ بناتے ہوئے ان تمام شاخوں کو کاٹنا ہو گا۔ ان جونکوں اور کھٹملوں کے خاتمے کیلئے میرٹ اور انصاف کا سپرے کرنا ہو گا تاکہ گلابی سنڈی کی طرح ہر طرف پھیلے اس کلچر کا خاتمہ ہو۔ اسلام میں بھی خلیفہ وقت اپنے بعد کسی رشتہ دار کو بیٹے کو نئے خلیفہ کے چنا¶ کیلئے قائم کمیٹی میں نامزد نہیں کرتا۔ تو پھر یہ اقرباءپروری کی جو لہر چل رہی ہے سرکاری عہدوں پر قبضے کی راہ نکالی گئی ہے اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ مگر کیا ہماری سیاسی جماعتیں یا ان کے قائدین ایسا ہونے دیں گے۔ نہیں وہ کبھی ایسا نہیں ہونے دینگے۔ کیونکہ ان کے اپنے اندر موروثیت کے جراثیم بدرجہ اتم موجود ہیں اور وہ ”پدرم سلطان بود“ کے فلسفے کے حامی ہیں۔
٭....٭....٭
مردم شماری میں نت نئے انکشافات ایک گھر میں 3 بیویاں اور ان کے 18, 18 بچے
اب مردم شماری والوں کا یہ رونا تو بجا ہے کہ لگتا ہے آج سارا دن اسی گھر کی تصدیق و اندراج میں صرف ہو گا کیونکہ یہ گھر نہیں پورا ایک محلہ ہے۔ جی ہاں ان 3 بیویوں کے ان 18 اٹھارہ بچوں میں سے جو شادی شدہ ہیں وہ بھی
عاشقی قید شریعت میں جو آ جاتی ہے
جلوہ کثرت اولاد دکھا جاتی ہے
پر بھرپور عمل پیرا ہیں اور ان کے بھی بچوں کی تعداد فی کس ڈبل فگر سے بڑھ رہی ہے۔ یوں اب کوئی محکمہ فیملی پلاننگ والوں کو جا کر بتائے کہ خدارا شہروں سے باہر نکل کر ذرا ان دیہی علاقوں کی بھی خبر جا کر لیں۔ جہاں کثرت ازدواج اور کثرت اولاد کا جنون ملکی معیشت اور انسانی وسائل کو سانپ کی طرح نگل رہا ہے۔ کم علمی اور بے شعوری کی وجہ سے وہ آنے والے مستقبل کے حالات سے بے خبر ہیں۔ جب ایک ایک گھونٹ پانی اور ایک ایک لقمہ روٹی پر گھر میں خانہ جنگی کا وقت آ رہا ہے سر چھپانے کے لئے کمرہ اور پہننے کے لئے کپڑے تو ابھی سے کم پڑ رہے ہیں۔ بیماریاں آسانی سے ایسے گھروں کی راہ دیکھ لیتی ہیں جہاں بھوک ننگ اور پریشانیاں ڈیرہ ڈالے ہوتی ہیں۔ جب ہم اتنے بچوں کی مناسب دیکھ بھال اور پرورش نہیں کر سکتے تو ہم انہیں زمانے میں در در کی ٹھوکریں کھانے‘ تنگدستی و لاچاری کی زندگی بسر کرنے کےلئے کیوں چھوڑ دیتے ہیں کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سے اولاد کی پرورش کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اگر ہم نے انسانی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور صحت‘ تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے ساتھ اچھی اور متوازن زندگی بسر کرنی ہے تو ہمیں آبادی پر کنٹرول کرنا ہو گا۔ ورنہ گلی گلی میں برہنہ تن ننگے پیر بیمار اور بھوکے بچے ہمارے مستقبل کا حسن گہنا کر رکھ دیں گے ۔
٭....٭....٭
پی ٹی آئی کا کل مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان
اب یہ نیا تنازعہ کیا رنگ دکھائے گا یہ بھی جلد سامنے والا ہے۔ صوبائی حکومت پنجاب پولیس پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے تشدد ان کی مار پیٹ اور گاڑیوں کو جلانے پر پہلے ہی غصے میں ہے اور اب ہنگامہ آرائی کرنے والوں کیخلاف سخت ایکشن کا کہہ چکی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی والے بھی ا پنے زور بازو پر کامل یقین رکھتے ہیں اور وہ ہر میدان میں مقابلے کے لئے پرجوش ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس وقت عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کی کاٹ پلٹ کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ زمان پارک جسے مریم نواز نے اب ضمانت پارک کا نیا نام دیا ہے اور اس کے جواب میں خان صاحب نے بھی تلخ زبان استعمال کی ہے اور جوڈیشل کمپلیکس کے باہر اور اندر جو کچھ ہوا اس کے بعد تو لگتا ہے پنجاب حکومت اب ایسی مزید کوئی خفت اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اب اگر پولیس اور کارکن آمنے سامنے ہوئے تو پھر حالات خراب ہو سکتے ہیں یا تو عمران خان کوئی سلجھا¶ کی راہ نکالیں یا حکومت جلسے کیلئے فری ہینڈ دے۔ پنجاب حکومت اس بار سابق وزیراعظم کو تو سکیورٹی مہیا کرنے پر تیار ہے مگر پولیس والوں کو پھینٹی لگانے والے بپھرے کارکنوں یعنی جلسے کی سکیورٹی یہ کہہ کر دینے سے انکاری ہے کہ جن کو مارا جاتا ہے انہی سے تحفظ طلب کرنا بے معنی ہے۔ کل کیا ہو گا کسی کو پتہ نہیں دعا ہے کہ دونوں فریق مل جل کر کوئی آسانی کی راہ نکالیں تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر یہ سیاسی خلفشار برقرار رہا تو اس سے الیکشن کی راہ کھوٹی ہو سکتی ہے جس کےلئے دونوں فریق پرعزم ہیں کہ جلد یا مقررہ وقت میں صاف و شفاف ہوں ۔۔۔