ریاستی اداروں کے خلاف مہم قابلِ مذمت ہے
پاکستان میں کچھ عرصے سے ریاستی اداروں کے خلاف ایک گھناو¿نی مہم چلائی جارہی ہے جس سے صرف ان اداروں ہی نہیں بلکہ ریاست اور عوام کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بیرون ملک غلیظ مہم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کے خلاف مہم ناقابل برداشت اور اداروں کے خلاف سازش کا تسلسل ہے۔ بیرون ملک محب وطن پاکستانی فارن فنڈڈ مہم کے خلاف آواز بلند کریں۔ وزیر اعظم آفس طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک بعض پاکستانیوں کے ذریعے زہریلی سیاست کو پھیلا جارہا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی اس سازش کا حصہ نہ بنیں، عمران خان اداروں اور انکے سربراہوں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وزیر داخلہ ملک کے اندر اداروں کے خلاف غلیظ مہم چلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں، پاکستان میں افراتفری، فساد اور بغاوت کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تقریباً ایک سال سے اہم ریاستی اداروں اور بالخصوص پاک فوج کے خلاف جو نفرت انگیز بیان بازی شروع کررکھی ہے اس کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ جب عمران خان حکومت میں تھے تب وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ حکومت، فوج اور عدلیہ، انگریزی محاورے کے مطابق، ایک صفحے پر ہیں لیکن جس روز سے وہ اقتدار سے محروم ہوئے ہیں وہ مسلسل اداروں کو بے جا تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی قطعاً خیال نہیں ہے کہ ان کے اس رویے سے دشمن ممالک اور عناصر کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور دنیا بھر پاکستان تماشا بن رہا ہے۔ کسی سیاسی رہنما اور بالخصوص وزیراعظم جیسے عہدے پر فائز رہنے والے شخص کو یہ رویہ ہرگز زیب نہیں دیتا، لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے پر نظر ثانی کریں اور یہ دیکھیں کہ وہ کون سے ایسے مسائل تھے جن کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کو قائم نہیں رکھ پائے۔
عمران خان ہی کے ایما پر سوشل میڈیا پر فوج اور اس کے افسران کے خلاف جو منفی پروپیگنڈا شروع کیا گیا وہ بھی نہایت قبیح ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ریاست بہت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک شدید معاشی مسائل میں الجھا ہوا ہے اور فوج دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے مصروفِ عمل ہے، ایسی کسی بھی حرکت کا ہونا جس سے فوج یا دیگر ریاستی اداروں کا مورال منفی طور پر متاثر ہو نہ صرف قابلِ مذمت بلکہ قابلِ گرفت بھی ہے۔ اس سلسلے تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ نوجوان نسل کو اس گھناو¿نی مہم میں شریک کر کے انھیں ریاست اور اس کی حفاظت کے ذمہ دار اداروں سے متنفر کیا جارہا ہے۔ اس کام کی کسی بھی ملک دوست سے تو ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا، البتہ ملک دشمن عناصر کو اس سے خوشی اور تقویت مل رہی ہے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت سوموار کو ہونے والے ایک اجلاس میں بھی بیرونِ ملک اور سوشل میڈیا پر اداروں اور بالخصوص آرمی چیف کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی شدید مذمت کی گئی۔ اجلاس نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے والی پولیس اور رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ پٹرول بم، ڈنڈوں، غلیلوں، اسلحے اور کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ رویہ ہرگز آئینی، قانونی، جمہوری اور سیاسی نہیں۔ اس موقع پر ریاستی اداروں کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فرض شناسی کو سراہا گیا اور یہ قرار دیا گیا کہ قانون شکن عناصر کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے اور اس سلسلے میں کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ اجلاس نے بدھ 22 مارچ کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا جس میں ریاستی عمل داری کو یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔
کسی بھی فرد، ادارے یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ریاست کے خلاف اٹھ کر کھڑا ہو جائے اور ریاست اور اس کے اداروں کو کمزور کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے ایسے اقدامات کرے جنھیں بغاوت کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کل کو اگر وہ دوبارہ حکومت میں آتے ہیں تو انھوں نے انھی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، لہٰذا انھیں ایسے حالات پیدا نہیں کرنے چاہئیں کہ اداروں سے وابستہ افراد کے دلوں میں ان کے خلاف بیزاری کے جذبات در آئیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور پاک فوج اس ملک کی محافظ ہے، اس لیے ہم سب کو اپنی اپنی سطح پر نہ صرف ملک کی بہتری کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے بلکہ اداروں کو مضبوط اور توانا بنانے کے لیے ان کی حمایت بھی کرنی چاہیے تاکہ وہ ملک دشمن عناصر کے خلاف اس اعتماد سے کارروائی کرسکیں کہ پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔