
کتاب بینی کا ذوق دھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہاہے۔اگر یہ کہوں کہ بالکل ہی ناپید ہو چکا ہے تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی بہترین دوست کتاب ہے۔ کتابیں بدلے میں ہم سے کچھ حاصل کیے بغیر ہمارے مزاج اور شخصیت پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ انھیں پڑھنے کے بعد جیسے ہماری روح کو قرار سا مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلمند لوگ تجویز کرتے ہیں کہ کم عمری سے ہی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ پڑھنا ہر عمر کے لوگوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ پڑھنے سے ہمارے خیالات کو وسعت ملتی ہے۔ کتابیں ہمیں ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے دنیا کے مختلف حصوں کی سیر کراتی ہیں۔ ہمارے لیے بہترین رہنما ثابت ہوتی ہیں۔ تاریخی کتابوں کو لے لیں، تو ان میں ایسے تاریخی واقعات ہوتے ہیں جن سے ہمارے علم میں گوناگوں اصافہ ہوتا ہے۔ انھیں پڑھ کر ہم ماضی کے بہت سے ادوار میں چلے جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ کس طرح سے زندگی بسر کرتے تھے ان کا طرزِ معاشرت کیا تھا۔
ٹیکنالوجی کی بات کریں تو سچ پوچھیں اب ٹیکنالوجی کا ہی زمانہ ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ یہ سارا علم ٹیکنالوجی کے ماہرین کو کتابوں سے ہی ملا ہے۔ اگرچہ اس دور کو الیکٹرانک ، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس کے جتنے بھی ماہر یا انجینئر ہیں انھوں نے نئے دور کی اس جدید ٹیکنالوجی کا سارا علم کتابوں سے ہی حاصل کیا ہے۔ ٹیکنالوجی پر مبنی کتابیں ہمیں تکنیکی ترقی اور مختلف آلات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اگر آپ فیشن انڈسٹری میں دلچسپی رکھتے ہیں تو فیشن کے موضوعات پر لکھی کتابیں پڑھ سکتے ہیں جو مارکیٹ اور بڑی بکس شاپ پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ کتابوں میں سب سے اہم کتابیں وہ ہیں جو ذہنی نشوونما میں ہماری مدد کرتی ہیں ۔ یہ کتابیں ہمیں زندگی میں اچھا کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور ہم پر مثبت اثرات ڈالتی ہیں۔ مارکیٹ میں ایسی کتابیں بھی دستیاب ہیں جو صرف مصنف کے ذہنی تخیل پر مبنی ہوتی ہیں اور ہمارے تخیلات کو بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔
کتابیں ہماری تفریح کا بھی سبب ہیں۔ تنہائی کے لمحات میں کتابیں ہماری بہترین ساتھی ثابت ہوتی ہیں۔ ہماری دلچسپی کے شعبوں کی شناخت میں بھی کتابیں ہماری مدد کرتی ہیں۔ زندگی میں بہترین شعبے کے انتخاب میں بھی ہمیں مدد دیتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں نئے نئے الفاظ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جس سے ہمارے اندازِ گفتگو میں بہتری آتی ہے اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اچھے الفاظ پر مبنی گفتگو سے ہم دوسروں کی آنکھوں کا تارا بن جاتے ہیں۔ کتابوں سے ہماری تخلیقی صلاحیتوں میں بھی بے حد اضافہ ہوتا ہے۔ کتابیں ہمیں نئی ایجادات کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔ کتابیں ہماری زبان کی مہارت کو بھی بہتر بنانے میں ہماری مدد کرتی ہیں جس سے ہماری تحریری صلاحیتیں بہتر اور اجاگر ہوتی ہیں۔ کتابوں کو پڑھنے سے ہماری خوداعتمادی میں بھی خاصا اضافہ ہوتا ہے۔
کالم کا سارا خلاصہ یہ ہے کہ کتابیں ہمیں تمام تر مسائل کو حل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ اس امر کا ہماری شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس سارے قصے میں ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ کتابوں کے بے شمار فوائد ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اب کتابوں سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ کتاب بینی کا ذوق ہمارے اندر سے ختم ہو گیا ہے۔ کتاب پر اگر آپ نے کوئی رائے دینی ہو تو اس کی ترتیب کچھ اس طرح ہونی چاہیے:
۱۔ کتابوں کو زندگی بھر کا ساتھی ہونا چاہیے۔
۲۔ کتابیں ہماری یادداشت کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔
۳ ۔ کتابیں پڑھنے سے ہمارا ذہنی تناﺅ اور دباﺅ کم ہوتا ہے۔
۴۔ کتابیں دنیا میں علم کا سب سے بڑا ذخیرہ ہیں۔
۵۔ کتابیں ماضی کے تجربات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہیں۔
۶۔ کتابیں پڑھنے سے ہی ہمیں زندگی کے بنیادی مقاصد پر توجہ دینے میں مدد ملتی ہے۔
۷۔ کتابیں پڑھنے سے بچے بہترین طالب علم بنتے ہیں۔
۸ ۔ نئی صلاحیتوں کے حصول میں کتابیں ہی ہماری مدد کرتی ہیں۔
۹۔ نئے حقائق کی دریافت اور نئے خیالات کی تلاش میںکتابیں بہترین معاون ثابت ہوتی ہیں۔
۱۰۔ کتابیں پڑھنے سے ہمیں دنیا بھر کی معلومات مل جاتی ہیں۔
ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں، ’میں مطالعہ¿ کتب سے سیر نہیں ہوتا۔ جب میں کوئی ایسی کتاب دیکھتا ہوں جسے پہلے نہ دیکھا ہو تو وہ کتاب میرے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ہوتی۔‘ ذاتی طور پر سمجھتا ہوں لفظ کا اصل مقام اور گھر کتاب ہی ہے۔ کمپیوٹر سکرین پر لفظ کی معنویت قریباً فنا ہو جاتی ہے۔ تعلیم جس کے اندر داخل ہوتی ہے وہ سادگی اختیار کرتا ہے، جس کے اوپر سے گزر جاتی ہے وہ ماڈرن بن جاتا ہے۔ کتاب سے بہتر کوئی رفیق نہیں ہو سکتا۔ اس سے ہمیں دنیا کے راز اور خزانے حاصل ہوتے ہیں۔ جو کتابوں کو چھوڑ دیتے ہیں وہ دنیا و مافیہا سے بیگانے ہو جاتے ہیں۔ جاہل صرف وہ نہیں ہوتا جو تعلیم یافتہ نہ ہو، جاہل وہ بھی ہوتا ہے جس نے ڈگریوں کے ڈھیر لگا رکھے ہوں مگر اپنے ظرف میں وسعت، لہجے میں نرمی اور طبیعت میں انکساری نہ پیدا کر پایا ہو۔ دکھ سے کہنا پڑھتا ہے کہ نئی نسل کی اب کتابوں سے محبت ختم ہو گئی ہے۔