
تہلکوں کا دور ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہو یا نہ گزر رہا ہو‘ تہلکوں کے دور سے ضرور گزر رہا ہے۔ ہر روز ایک نیا تہلکہ مچتا ہے بلکہ بعض روز تو دن میں تین تین تہلکے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ایک تہلکہ صبح کو مچا تو دوسرا دوپہر کو اور تیسرا رات کو
کل کا سب سے بڑا تہلکہ شیخ رشید کی پریس کانفرنس ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہی حالات رہے تو ایک دن عوام سڑکوں پر ہوں گے۔ حالات سے مراد مہنگائی وغیرہ ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اس میں تہلکہ کیا ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ حضور‘ شیخ رشید کے خطاب سے تہلکے کا یوں غائب ہو جانا بذات خود تہلکہ ہے۔
ملاحظہ فرمائیے۔ نہ خونی انقلاب کی بات،نہ انارکی کی۔ نہ یہ کہا کہ سری لنکا بنتے دیکھ رہا ہوں۔ نہ انہیں ہر طرف خون ہی خون نظر آیا اور تو اور عوام سے یہ پرزور اپیل بھی نہیں کی کہ جلا دو‘ آگ لگا دو‘ مار دو‘ اڑا دو‘ گرا دو۔
تو جناب یہ ہے اصل تہلکہ۔
________
اس دوران البتہ خان صاحب نے اپنے تہلکہ خیز بیانیے میں ایک تہلکے کا اضافہ کیا۔ انہوں نے سری لنکا بننے‘ ملک ہاتھ سے نکل جانے والے تہلکوں کا اعادہ کیا اور اضافہ یہ کیا کہ بات پھر ایران جیسے انقلاب کی طرف جائے گی۔ اس نئے تہلکے کا ایک مثبت نتیجہ یہ ضرور برآمد ہوا کہ انہیں کمرہ عدالت میں حاضر ہونے سے چھوٹ مل گئی۔
مسئلہ اس تہلکے میں یہ ہے کہ ایران جیسے انقلاب کیلئے پہلی لازمی شرط ہے کہ عوام سڑکوں پر ہوں جو وہ نہیں ہیں۔
محض ایک جتھہ لے کر جوڈیشل کمپلیکس یا ہائیکورٹ پر چڑھائی کرنے سے تو انقلاب آنے سے رہا۔ جتھہ بندی سے تو بس اتنا ہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جتھہ بند گھیرے میں آ جاتے ہیں۔ اس بات کا علم خان صاحب کو بھی ہے‘ بار بار فرما رہے ہیں کہ مجھے گھیرے میں لیا جا رہا ہے‘ میرا گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔
خان صاحب اندر ہی اندر حیران تو ہوں گے کہ ان کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے لیکن گھیراؤ جلاؤ کرنے والے ملک کے کسی شہر میں نظر نہیں آ رہے‘ حتیٰ کہ ان کے گڑھ پشاور میں بھی ’’سکوت شام‘‘ طاری ہے۔
________
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ خاں صاحب پر پنجاب میں کل چھ مقدمات ہیں۔ ادھر دو تین مقدمے اسلام آباد میں ہیں چند ایک مقدمے پہلے سے چل رہے ہیں جیسا کہ توشہ خان‘ فارن فنڈنگ وغیرہ کل ملا کے بارہ تیرہ بنتے ہیں۔
لیکن خان صاحب کا اصرار ہے کہ ان پر 96 مقدمات بن چکے ہیں اور چند روز میں سنچری پوری ہونے والی ہے۔
حکومت نے اپنے 6 مقدمات کی فہرست پیش کر دی‘ خان صاحب بھی 96 کی فہرست پیش فرما دیں تاکہ یہ 90 کی کمی پوری ہو۔
________
ڈیم والے بابا کا مخالفوں کو ’’ٹھوکنے‘‘ کا شوق ابھی جاری ہے۔ نواز شریف کو پانامہ سے اقامہ نکال کر ان کی سیاست پر نااہلی کی تاحیات کیل ٹھونک دی۔ اب ایک نئی آڈیو لیک ہوئی ہے جس میں وہ کسی طارق رحیم نامی اشرافیہ کی طرف سے محترمہ مریم نواز شریف کو ٹھوک دینے کی پیشکش پر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ابھی نہیں‘ جب ضرورت پڑی‘ آپ سے کہہ دیں گے۔ اس آڈیو میں سیاق و سباق سے ’’ٹھوک‘‘ دینے کا مطلب قتل کر دینا ہی لیا جا سکتا ہے۔ انڈر ورلڈ اور سسلین مافیا کی زبان میں ٹھوک دینے کا مطلب کسی کی سپاری دینا ہوتا ہے۔ بظاہر ڈیم والے بابا جی کہہ رہے ہیں کہ سپاری لے لو لیکن اگلے حکم کا انتظار کر۔
ڈیم والے بابا جی کو شاید اس یات کا بھی غصہ ہو گا کہ مریم ان سے ڈیم فنڈ کا حساب کیوں مانگ رہی ہیں۔ مریم صاحبہ کو یہ حساب مانگنے سے گریز کرنا چاہئے۔ آخر چالیس پچاس ارب روپے کی معمولی رقم ہی تو ہے۔ پتہ نہیں کتنوں نے اس دور میں کتنے دسیوں ارب کمائے ہیں۔ ڈیم والے بابا نے بھی چالیس پچاس ارب کی دہاڑی لگائی تو کون سی قیامت آ گئی۔ بابا جی کی خدمات بھی تو دیکھیں‘ تبدیلی کے معماروں میں آپ کی ذات والا صفات نہ ہوتی تو کیا تبدیلی ’’تعمیر‘‘ ہو پاتی۔
________
تبدیلی کے چیف آرکیٹکٹ قمر جاوید باجوہ کا ا یک انٹرویو بھی اچھا خاصا تہلکہ لئے ہوئے ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے میڈیا میں اپنے صحافی پلانٹ کئے‘ اس لئے کہ ہمیں نواز شریف کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کی ضرورت تھی۔
’’پلانٹڈ صحافیوں‘‘ میں تو ان کے اس اعتراف سے کھلبلی مچ گئی ہو گی‘ اس ڈر سے کہ کہیں ان کے نام بھی سامنے نہ آ جائیں۔ حالانکہ ناموں کی فہرست لانے کی ضرورت بھی نہیں ہے‘ پلانٹڈ اپنے منہ سے خود بول رہے ہیں کہ ہم پلانٹیڈ ہیں۔ فہرست آگے تو کیا‘ فہرست نہ آئے تو کیا۔
________
باجوہ نے ’’انقلاب والے سیاستدان‘‘ کے بارے میں کہا کہ وہ پاکستان کا سب سے جھوٹا آدمی ہے۔ یقیناً یہ بات انہیں پانچ سال پہلے معلوم نہیں ہوئی ورنہ وہ انہیں ملک پر ’’انسٹال‘‘ کیوں کرتے۔ اس صلاحیت کے باب میں انہوں نے دوسرا نام لال حویلی کے ’’شیخ‘‘ کا لیا۔ نہ بھی لیتے تو کیا تھا‘ معلوم کو معلوم اور حاصل کو حاصل کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ مزید فرمایا ہے کہ فلاں صحافی کو گولی میں نے نہیں مروائی‘ فلاں نے مروائی‘ صحافیوں کو نوکری سے میں نے نہیں‘ فلاں نے نکلوایا۔
اس فلاں کی فیض رسائی کا ’’اعتراف‘‘ باجوہ صاحب کی زبان سے ہونا اپنی جگہ الگ تہلکہ ہے۔ دیکھئے‘ تو دیرپا وضاحت کب آتی ہے‘ آتی بھی ہے یا نہیں آتی۔
________
مرد مومن مرد حق کے صاحبزادے اعجاز الحق اپنے لاکھوں کروڑوں ساتھیوں کے ہمراہ باضابطہ طور پر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
خان صاحب کو سیاسی طور پر دریافت ضیاء الحق اور حمید گل مرحوم نے کیا تھا۔ اس دریافت کو چمکانے کا کام پھر پاشا صاحب نے‘ پھر فیض الاسلام اور شکریہ شریف نے کیا اور اس چمکدار ہیرے کو آفتاب و ماہتاب باجوہ و فیض نے بنایا۔ دیکھئے‘ ان سب کی اولادیں پی ٹی آئی کو کب پیاری ہوتی ہیں۔
ادھر حکومت اور کچھ دیگر ’’قوائے ملکی‘‘ کے تیور کچھ اچھے نہیں ہیں۔ بعض ایسی باتوں کا نوٹس لے لیا گیا ہے یا لیا جا رہا ہے۔ جن کے بارے میں ہریالے بنے کو گمان تھا کہ نہیں لیا جائے گا۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے کہ بعض سیانوں نے غلط وقت پر غلط سیاسی جماعت میں شمولیت کا غلط فیصلہ کیا اور پھر پچھتائے۔ اعجاز الحق نے پتہ نہیں ان کی تاریخ پڑھی کہ نہیں!