
بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی اور ان کے ساتھیوں کے توسیع پسندانہ عزائم اور مخصوص مذہب کے حوالے سے شدت پسند رویئے کی وجہ سے صرف خطے کا امن ہی خطرے میں نہیں ہے بلکہ اس صورتحال میں بھارت کے اپنے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ بھارت پاکستان کے حوالے سے منفی مہم تو چلاتا رہتا ہے لیکن علیحدگی کی جو آگ وہاں لگی ہوئی ہے وہ باوجود کوششوں کے نریندرا مودی کی حکومت اس آگ پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ بھارت کے حکمران شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکتے ہوئے یہ بھول رہے ہیں کہ آگ لگی میںتو جلنا سب نے ہے یہ ممکن نہیں کہ بھارت کے حکمران شدت پسندی کو فروغ دیں ہندوؤں کے علاوہ سب کے لیے زمین تنگ کر دیں اور یہ سمجھیں کہ اس کے جواب میں انہیں کچھ نہیں ہو گا یا وہ یہ سمجھیں کہ دوسروں کیلئے مشکلات پیدا کر کے اور پیسے کے زور پر سب کچھ دبا دیا جائے گا تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال خالصتان ریفرنڈم رکوانے میں ناکامی ہے۔ بھارت کو تمام تر کوششوں کے باوجود ریفرنڈم رکوانے کے معاملے میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بھارت نے خالصتان کے حق میں ہونے والے ریفرنڈم کو رکوانے کی ہر ممکن کوشش ضرور کی، موجود وسائل کو بروئے کار لایا گیا لیکن ہر طرف سے ناکامی کے بعد بھارت نے سائبر حملوں کا راستہ بھی اختیار کیا لیکن اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
برسبن میں خالصتان ریفرنڈم پر بھارتی ہیکرز کے حملوں کی کوششوں کے باوجود گیارہ ہزار سکھوں نے ووٹ ڈال کر نریندرا مودی اور اس کے متعصب حکمران ساتھیوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ نریندرا مودی سرکار نے ووٹنگ کے دوران تین مرتبہ اپنے ہیکرز کے ذریعے ووٹنگ مشینوں پر سائبر حملہ کرنے کی کوششیں کیں۔ ووٹنگ کے دوران بھارتی ہیکرز بار بار ووٹنگ عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہے لیکن خالصتان کے حامیوں نے ہر حملے کو ناکام بناتے ہوئے مسلسل رکاوٹوں کے باوجود ووٹنگ کے عمل کو مکمل کیا۔
بھارت جو کہ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے اس نام نہاد جمہوریت کا چہرہ ہر دوسرے دن بے نقاب ہوتا ہے جب بھارتی حکومت کے متعصب رویے کی وجہ سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں صرف ہندو ہی محفوظ ہیں۔ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زندگی ہر وقت تنگ ہوتی رہتی ہے۔
سکھوں میں بھارت سے نفرت میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور اب سکھ نوجوانوں میں نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ بھارتی جھنڈے کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ خالصتان کی آزادی کیلئے ہونے والے مظاہرے کے دوران سکھ نوجوانوں نے لندن ہائی کمیشن کی عمارت سے بھارتی پرچم اتار کر خالصتان کا جھنڈا لہرایا ہے۔ کیا یہ واقعہ نریندرا مودی کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں ہے۔اس سے زیادہ نفرت کا اظہار اور کیسے ہو سکتا ہے۔ بھارتی حکام کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ وہ کوشش اور وسائل خرچ کرنے کے باوجود خالصتان کی تحریک کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ خالصتان کا پرچم لگانے والے دل خالصہ کے ایک کارکن کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا ۔ بھارت سفارتی سطح پر ناکام ہو رہا ہے۔ ایک طرف سفارتی ناکامی ہے اور دوسری طرف سائبر ناکامی ہے تیسری طرف سکھوں کی بڑھتی ہوئی نفرت ہے۔ برسبن میں ریفرنڈم رکوانے کی کوشش کرنے والی مودی سرکار نے اس سے قبل یورپ میں بھی ریفرنڈم کے دوران اسی طرح کی کوششیں کی گئی تھیں۔ سکھ فار جسٹس تنظیم کے مطابق سائبر حملوں کے پیچھے بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ بھارتی حکومت سکھوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمت کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے وہ سکھوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے اندرونی طور پر بھی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ سکھوں میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے اور بھارتی حکومت علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ گذشتہ دنوںبھارتی ریاست پنجاب میں بھی پولیس سٹیشن پر حملے کے الزام میں ’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ اور خالصہ لیڈر کی گرفتاری کے لیے بڑا آپریشن کیا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق پولیس نے انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات پر جالندھر کے علاقے میہٹ پور میں بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جس میں وارث پنجاب دے کے سربراہ کے چھ قریبی ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس آپریشن میں خالصہ لیڈر امرت پال پولیس گرفتاری سے بچ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ گزشتہ ماہ بھارتی پنجاب میں ساتھی کی گرفتاری کے خلاف بڑی تعداد میں سکھوں نے اجنالہ پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی تھی۔
شائننگ انڈیا تو دراصل لوگوں کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ ہے۔ مودی کی حکومت میں وہاں زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین کا باہر نکلنا مشکل ہے۔ ریاست اترپردیش کے شہر گورکھ پور میں بجلی کا بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے اس بحران کی وجہ سے شہری پیسے دے کر اپنے موبائل چارج کروانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔کبھی وہاں راشن کارڈ کا دور تھا اب گورکھ پور کے گاؤں بائیلو میں لوگ کئی گھنٹے قطار میں کھڑے ہو کر موبائل چارج کروانے کے انتظار میں رہے۔ دیہاتوں میں نجی طور پر کام کرنے والے ان دیہاتیوں سے موبائل فون بیٹری چارج کرنے کے دس روپے اور پانی کی پمپنگ کرنے والے پورٹیبل جنریٹرز کی چارجنگ کے پچاس روپے وصول کر رہے ہیں۔
کئی روز سے بجلی کے اس بحران کی وجہ سے مقامی آبادی کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے لیکن نریندرا مودی دنیا کو ایسے دکھا رہے ہیں جیسا سب اچھا ہے۔ بھارت کی حکومت بہت وقت اور سرمایہ پاکستان کی مخالفت میں خرچ کرتی ہے اگر یہی وقت اور سرمایہ وہ اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں لگائے تو یقینی طور پر ناصرف ان کے اپنے حالات بہتر ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں بھی امن اور استحکام آئے گا۔ خطے میں عدم استحکام، بدامنی اور اسلحے کی دوڑ کے پیچھے بھارتی حکومت کی متعصب اور شدت پسند پالیسیاں ہی ہیں۔ جہاں قطار میں لگ کر موبائل چارج کیا جائے وہاں زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کے حالات،تعلیم اور صحت کی سہولیات کے حالات کیا ہوں گے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ نریندرا مودی کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور سکھوں کی تحریک آزادی کو دبانے کی بھی ناکام کوشش کر رہا ہے وہ وقت دور نہیں جب بھارت کے متعصب ہندوؤں کو اپنے مظالم کا حساب دینا پڑے گا۔