یوم پاکستان ، بھگت سنگھ اور ہم

Mar 22, 2021

ڈاکٹر احمد سلیم

یوم پاکستان کے ہفتے میں ’’ بھگت سنگھ ‘‘ نامی شخصیت کے متعلق لکھنا اپنے اوپر فرض سمجھتا ہوںکیونکہ جتنا ضروری تحریک پاکستان کے بارے میں لکھنا اہم ہے اس سے زیادہ ضروری ان لوگوں کے بارے میں لکھنا ہے جو تحریک پاکستان اور ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان میں سے کچھ نے لاہور ہائیکورٹ میں یہ درخواست دائر کی کہ یہ لوگ یوم پاکستان کے دن ’’ شادمان چوک ‘‘ میں بھگت سنگھ کی یاد میں تقریب منعقد کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ بھگت سنگھ 1907 میں موجودہ فیصل آباد کے ایک گائوں، ’’ بھِنگا‘‘ ( موجودہ چک نمبر 105-GB) میں پیدا ہوا۔ سیاسی طور پر ــ’’ انارکسزم‘‘ ( Anarchism ( کا بہت بڑا علمبردار رہا۔اور مشہور انڈین تاریخ دان ، ’’ کے۔این۔ پنیکار ‘‘ کے مطابق بھگت سنگھ اوائل کا ’ انڈین مارکسسٹ‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ بھگت سنگھ ؛ ’’ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک آرمی ‘‘ کا فعال ممبر تھا اور طاقت کے بے جا استعمال پر یقین رکھنے والا ایک ’’ بنیاد پرست‘‘ تھا ۔ اسی وجہ سے اس کے ’’ گاندھی جی‘‘ سے اس کے کافی اختلافات رہے۔ بلکہ بہت سے ہندوستانی یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ بھگت سنگھ کو پھانسی لگنے میں گاندھی جی کی مرضی کا دخل بھی تھا۔ اس سلسلہ میں V.N . Datta کے مقالہ جات اور مضامین جو ’’The Tribune ( India) ‘‘ میں 27 جولائی 2008ء اور پھر 2011 میں شائع ہوئے ، میںکافی تفصیل درج ہے۔ بھگت سنگھ کے آباء اجداد مہا راجہ رنجیت سنگھ کے نمک خوار تھے۔ اس کے دادا ارجن سنگھ ، آریہ سماج کے حامی اور سوامی دیانند سرسوتی کے ماننے والے تھے۔ بھگت سنگھ کے دو چچا ، اجیت سنگھ اور سواران سنگھ کو ’’ کاکوری ٹرین ڈاکہ کیس‘‘ میں ٹرین لوٹنے کے جرم میں 19 دسمبر ، 1927ء کو پھانسی دی گئی۔
 بھگت سنگھ کے دو کارنامے مشہور ہیں۔ اول ایک انگریز پولیس افسرکا قتل۔ بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں راج گرو، سکھدیو، وغیرہ نے اپنے عزیز لالہ لجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ایک پولیس افسر ’’ جیمز‘‘ کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ مگر راج گرو کی گولی سے ایک اور انگریز افسر John P. Saunders کا قتل ہو گیااور بعد ازاں بھگت سنگھ نے اس انگریز کے مردہ جسم میں ۵ گولیاں داغیں۔ اس کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل’’ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک آرمی ‘‘ کے پلیٹ فارم سے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں ایک ساتھ دو بم دھماکے کئے۔ بعد ازاں تاج برطانیہ کو بھگت سنگھ کی جانب سے کی جانے والی ’’ رحم کی درخواست‘‘ مسترد ہونے کے بعد اسے 23مارچ 1931ء کو ’’ مبینہ طور پر‘‘ پھانسی دے دی گئی۔ مبینہ طور پر اس لیے کہ ایک مشہور کتاب ــــ’’ Martyrdom of Shaheed Bhagat Singh’’;  ‘‘ میں برٹش لائیبریری لندن میں موجود ''British Intelligence '' کی کچھ اہم دستاویزات کے حوالے سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بھگت سنگھ کی موت دراصل پھانسی سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے اور اسکے ساتھیوں کو زندہ حالت میں اس انگریز افسر J.P Saundersکے اہل ِ خانہ کے حولے کر دیا گیا تھا جنہوں نے اسے گولیاں مار کر اپنا بدلہ لیا تھا۔ بہر کیف بھگت سنگھ کی بڑی وجہ شہرت، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بم دھماکے ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی مقصد سے کسی بھی عوامی مقام یعنی ــ’’ پبلک پلیس ‘‘ میں ’’ بم دھماکہ ‘‘ کرنے والا ’’ ہیرو‘‘ یا ’ شہید‘‘ ہو سکتا ہے؟ وہ بھی زمانہ امن میں؟ ’’عوامی مقام‘‘ پر بم دھماکے تو کسی بھی جنگی قانون کے بھی خلاف ہیں ۔ اگر نہتے سویلین لوگوں پر بم دھماکے کرنے و الے ’ ہیرو‘‘ ہیں تو پھر دہشت گرد کون ہیں؟ 
بحث کے لیے مان بھی لیں کہ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس کی آزادی کا علمبردار تھا اور کس کا ہیرو۔ جب بھی کوئی دو یا زیادہ قوتیں آپس میں برسرِ پیکار ہوتی ہیں تو ان کے اپنے اپنے نظریات اور ہیرو ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں تین قوتیں آپس میں برسر ِ پیکار تھیں۔ اول انگریز جو پورے ہندوستان پر قبضہ قائم رکھنا چاہتے تھے۔ دوسرے ہندو اور ان کے ساتھی جن کا مقصد تھا کہ انگریز تو ہندوستان چھوڑ جائے مگر کسی بھی صورت پاکستان قائم نہ ہو۔ تیسری قوت کے سپہ سالار قائد ِ اعظم، محمد علی جناح تھے۔ یہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ یعنی ’’ نظریہ پاکستان‘‘ کے علمبردار تھے۔ اگر بھگت سنگھ ہیرو تھا بھی تو وہ ان قوتوں کا ہیرو تھا جو قائدِ اعظم اور قیام پاکستان کی مخالف تھیں ۔
 ایک نام نہاد تنظیم ، کی جانب سے پہلی مرتبہ یہ درخواست 2001 میں دائر کی گئی کہ شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھا جائے۔ اس وقت بھی ان کی جانب سے اس سلسلے میں ایک کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ 23 مارچ والے دن گنتی کے چند لوگ ایک درجن موم بتیاں جلا کر بھگت سنگھ کو قیام پاکستان کا ہیرو بنانا چاہتے ہیں۔ کوئی ا نکو بتائے کہ ہیرو موم بتیاں جلا کر یا عدالتوں میں کیس کر کے نہیں بنائے جاتے بلکہ تاریخ اور وقت انکا تعین خود کرتا ہے اور ہمارے ہیروز کا تعین ہو چکا ہے۔ اگر ہم انکا فارمولا تسلیم کر لیں تو کیا یہ لوگ بھارت جا کر یہ مطالبہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ کہ قائد اعظم، لیاقت علی خان ، چوہدری رحمت علی سمیت ہمارے بیشمار ہیروز جنہوں نے انگریز کے خلاف جدوجہد کی تھی کے نام پر انڈیا میں چوک قائم کرکے انکی سالگرہ منائی جائے؟ 
 ٓ مجھے کوئی حق نہیں کہ میں بھگت سنگھ کی بے عزتی کروں بلکہ میں انڈیا کے ہیرو کے طورشاید بھگت سنگھ کی عزت کر سکتا ہوں۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسے ’’ قیامِ پاکستان‘ ‘ کا ہیرو قرار دے کر اپنے شہداء کا مذاق اڑائوں۔ انکے ہیرو انکے لیے اور ہمارے ہیرو ہمارے لیے۔ دراصل یہ ’’ وسیع تر پنجاب ‘‘ کی جانب ایک قدم اٹھا کر ہمیں وہی پرانا سبق پڑھانے کی کوشش کی جا ری ہے یہ سرحد کیوں بن گئی؟ جناب سرحد اس لیے بن گئی کہ ہمارا مذہب ، ہماری زندگی ، ہمارا قبلہ ، سب الگ الگ ہے۔ اور ہمارے ہیرو بھی۔ اور دوسرا یہ کہ یہ سرحد بن چکی ہے اور اب قیامت تک ختم نہیں ہو سکتی۔ آپکے ہیرو آپکو مبارک ہوں۔ ہمارے لیے ہمارے ہیرو بہت ہیں۔ میں اہلِ لاہور کی جانب سے تجویز پیش کرنا ہوں کہ شادمان چوک کا نام ’’ غازی علم دین شہید‘‘ چوک رکھا جائے۔ 

مزیدخبریں