گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر قوم سے کہہ رہے تھے کہ کورونا کی وبا پھیل رہی ہے لیکن آپ کو گھبرانا نہیں ہے۔میں معافی چاہتا ہوں آپ کا حکم سر آنکھوں پر ‘جیسے تیسے اب تک تو اس امید پر دن کاٹ لیے کہ بس آج پریشانی کی آخری رات ہے کل ایک بہتر پاکستان نظر آئے گالیکن اب اس کورونا کی وبا کی صورتحا ل میں قوم کا گھبرانا تو بنتا ہے۔ یہ قوم اس وبا سے بھی نہ گھبراتی جب اس کی دسترس میں بہترین طبی سہولیات موجود ہوتیں، ہیٹ اسٹروک سے ہزاروں ہلاکتوں کے وقت یہ قوم انتظامات دیکھ چکی ہے، اس وقت بھی لوگوں کو دفنانے کی جگہ کم پڑ گئی تھی۔ یہ قوم ملک میں کورونا وائرس ٹیسٹ کی قیمتوں، ٹیسٹ کی کٹوں کی تعداد، اسپتالوں کی تعداد، ان میں موجود وینٹی لیٹرز کی تعداد اور ملک میں موجود ادویات سے بھی بخوبی آگاہ ہے اور مشکل حالات میں بے ضمیر و بے حس منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں سے بھی خوب واقف ہے، اس لیے اب اس کا گھبرانا تو بنتا ہے۔ یہ قوم اٹلی میں برپا ہونے والی قیامت سے بھی بخوبی آگاہ ہے اس لیے گھبرانا تو بنتا ہے۔ یہ انسانی آنکھ سے بھی نا نظر آنے والا وہ جرثومہ ہے جس نے اپنے آگے دنیا کی سپر طاقتوں کو بھی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ حالاں کہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں اور ہم ترقی پذیر کی فہرست میں بھی پیچھے ہیں اس لیے کچھ گھبراہٹ تو ہے۔ یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے بہت سے قابلِ تعریف کام کررہی ہیں ۔ حالات ایسے ہیں کہ ہم کسی بھی کوتاہی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہمارے پاس یہ وبا پھر بھی قدرِ دیر سے آئی آنا شروع ہوئی ہے ہمارے پاس کئی ممالک کی مثالیں سامنے آچکیں ہیں ہمیں ان سب کوذہن میں رکھتے ہوئے اہم فیصلے کرنے ہوں گے کسی بھی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں ہی جلد اور یقینی کامیابی ہے وبا کے پھیلنے کے بعد کے فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسا کہ اٹلی اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے لیے لاک ڈاؤن آسان کام نہیں بہت سے مسائل پیدا ہوں گے لیکن اگر بہترین حکمت عملی بنا لی جائے تو مسائل کم سے کم کیئے جا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر آپ کو ایک ساتھ کسی دو پریشانیوں کا سامنا ہو تو بڑی پریشانی سے بچنے کے لیے چھوٹی پریشانی کو گلے لگالو۔ ہمارے نظام میں خامیاں ضرور ہیں ہماری قوم میں شعور کی کچھ کمی ضرور ہے لیکن ہم کسی بھی قوم سے کم نہیں ہمارے اندر جذبہ ہے ہمت ہے۔ ہر کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے ہمیں بھی کرنا ہوگا خاص طور پر ان حالات میں ہر قسم اور ہر سطح کے اختلافات کو بھول کر اس وبا سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے۔ان حالات میں لوگوں کو اس حوالے سے احتیاط کرنے کی آگاہی دیں، سوشل میڈیا پر کسی بھی غلط خبر کی تشہیر میں ہرگز حصہ نہ لیں، کوئی بھی ایسی خبر دیکھیں جس کا آپ کو یقین ہو غلط ہے اس کی تردید کریں۔ اپنے علاقوں میں قائم چائے خانوں، ہوٹلوں اور آئسکریم کی دکانوں میں لوگوں کو بیٹھے دیکھیں تو انہیں سمجھائیں کے آپ اشیاء لے کر گھر چلے جائیں یہاں ایک ساتھ نہ بیٹھیں۔ روزانہ کی دیہاڑی کمانے والوں کی سب مل کر ایک ایک وقت کے کھانے کا انتظام کریں۔ یا انہیںایسے اداروں کے دسترخوانوں کا بتائیں جہاں سے وہ کھانا حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ان حالات میں طبی ماہرین مصافحہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور علماء کرام بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں تو اس میں احتیاط کریں جذباتی نہ ہوں کیوں کہ دین اسلام نے خودکشی کو حرام قراردیا ہے۔ موجودہ حالات میں سوشل میڈیا آگاہی کا اہم اور موثر ذریعہ ہے اس کا درست استعمال کریں، سوشل میڈیا میں بہت سی ایسی پوسٹیں بھی نظر سے گزرتی ہیں جس سے لوگوں کی پریشانی اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں حکومتیں کامیاب و ناکام، اچھی،بری، لیڈران اچھے،برے، نظام اچھا،برا ہوسکتا ہے لیکن وطن ہمیشہ پیارا ا ور دل و جان سے پیارا ہوتا ہے اس کی ہمیشہ اچھی تصویر پیش کریں۔وبا پھیلنے کی صورت میں دینِ اسلام کیا کہتا ہے اس حوالے سے علماء کرام سے گفتگو پر مبنی پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کاموں میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑھ چڑھ کا حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ صاحب حیثیت لوگوں کی ایسی عمارتیں جو فی الوقت استعمال میں نہیں انہیں قرنطینہ سینٹر کے لیے عارضی طور پر وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر چین کی طرح ہمیں بھی جلد از جلد کامیابی حاصل کرنی ہے تو سیاسی جماعتوں، حکومت ، فوج اور عوام کو ایک صفحہ پر آنا ہوگا کیوں اس وبا کا سب سے بہترین علاج ہی احتیاط ہے ۔ ارشد قریشی۔کراچی
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024