کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کا معاشرتی نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے مواقع پر کمزور سے کمزور ایمان والا بھی خوف خدا سے مغلوب ہو کر راہ راست پر آ جاتا ہے مگر کچھ لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے۔ گزشتہ روز پیشہ ور چوروں نے لاہور کی مرکزی ایکس چینچ سے وابستہ تین ڈسٹری بیوشن باکس دن دیہاڑے کاٹے اور رکشہ لوڈروں میں ڈال کر غائب ہوگئے۔ ایک ایک باکس چار پانچ سو فون لائنوں کو چلا رہا تھا۔ اس طرح پرانی انار کلی اور جین مندر کے اردگرد کے علاقے کے سینکڑوں فون خاموش ہو گئے۔ اے جی آفس اور ایف بی آر کے سرکاری نمبروں والے فون بھی بند ہو گئے۔ المیہ یہ تھا کہ آدھ پون گھنٹے کی مسلسل واردات کے دوران پوچھنے پر مجرموں نے جواب دیا کہ وہ محکمے کے لوگ ہیں۔ اس ایک واردات سے جو ورکنگ ڈے میں صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ ہوئی مجرموں کی دیدہ دلیری اور معاشرتی زوال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ معاشرہ جب اس حال کو پہنچتا ہے تو پھر کرونا وائرس جیسے مسائل اور عذاب اترتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے الگ رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت منظور ہونے کے بعد ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں خواجہ محمد رفیق شہید کے فرزند خواجہ سعد رفیق نے بڑے دل اور محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کرنے کی بجائے یہ کہیں گے کہ اس وقت پوری قوم کو ہر طرح کی سیاست سے بالاتر ہو کر کرونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق کے ساتھ ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ پس دیوار زنداں گزارا ہے۔ قیدو بند کا معاملہ ان کے خاندان کے لئے نیا نہیں ہے۔ ان کے والد مرحوم نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کی حکمرانی کے مطالبے کے لئے شہادت قبول کر لی تھی اور پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت اور وزیراعظم بھٹو مرحوم کے دور میں ان کو پنجاب کے پہلو میں ایک پرامن جمہوری مظاہرے کے دوران شہید کر دیا گیا تھا۔ شاید یہ لہو کا اثر ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو حق گوئی کی عادت سی ہو گئی ہے اور وہ اس عادت کا مظاہرہ اپنی جماعت مسلم لیگ ن کے اجلاسوں میں بھی کرتے رہے تھے اور شاید ایک دو ان لوگوں میں شامل تھے جو اپنی جماعت کی غلطیوں کا ذکر اپنی لیڈر شپ کے منہ پر کرتے اور برا بھی بنتے تھے۔ بعد میں جب پارٹی اقتدار میں نہ رہی تو ان کی صاف گوئی کا سلسلہ جاری رہا اور ان کا کہنا تھا کہ ان کو سزا سے پہلے کی سزا اس صاف گوئی کے باعث تھی۔ اقتدار کے دنوں میں ان کے پاس ریلوے کی وہ وزارت تھی جو سابق وزرا کے دور میں خصوصاً نیشنل عوامی پارٹی کے کوٹے کی وزارت یعنی بلور صاحب کے دور زوال کی آخری حدوں تک جا پہنچی تھی۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنی انتظامی صلاحیتوں سے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ افسر شاہی کی مخالفت کے باوجود بہت سے ایسے فیصلے کئے جن کے باعث ریلوے خسارے سے نکل کر منافع کی سطح پر آ گئی۔ خواجہ سعد رفیق ایک خاندانی سیاسی ورکر اور لیڈر ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر ضمانت پر رہائی کے بعد محب وطن لیڈر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کچھ کہنے کی بجائے یہ کہنا پسند کریں گے کہ اس وقت ہم سب کو مل کر کرونا وائرس جیسی عالمی وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔
کرونا وائرس کی بات چل ہے تو اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ملکی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو ذمہ داری قیادت کا فرض ادا نہیں کر رہا۔ ملکی سطح پر اس آفت کو فرقہ واریت کا رنگ دینے والے وطن دشمنوں کی تو قوم نے خوب حوصلہ شکنی کی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ مجموعی طور پر قوم جاگ رہی ہے لیکن پھر بھی اکادکا لوگ ایسے ہیں جو اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ ملنے ملانے میں احتیاط نہیں برت رہے۔ حکومتی ہدایات کو نظرانداز کر رہے ہیں شاید اٹلی کا انجام بھول رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح امریکہ کی قیادت میں چین کے خلاف پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ دنیا میں مذہبی قیادت کے دو بڑے مراکز ہیں۔ ایک اٹلی (جہاں ویٹی گن سٹی میں پوپ موجود ہیں) اور دوسرا مکہ شریف اور مدینہ منورہ۔ پوپ نے اٹلی میں سنڈے سرمن موقوف کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلامی مراکز یعنی مکہ شریف اور مدینہ شریف میں سعودی عرب کی قیادت نے نماز جمعہ کے اجتماعات کو عارضی طور پر ترک کیا ہے اور گھروں میں نماز ظہر ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تو ہمارے ہاں نماز جمعہ کو گھروں میں نماز ظہر کی صورت ادا کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے کیوں خوف محسوس کیا گیا ہے۔ علماء کرام مجبوری کی موجودہ صورت حال میں راہنمائی سے کیوں قاصر ہیں؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024