اتوار ‘ 26 ؍ رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 22 ؍ مارچ 2020 ء
بھارت میں سرعام چھینکنے پر لوگوں نے شہری کی پٹائی کر دی
یہ ہوتا ہے اہتمام حفاظتی تدابیر کا، بے شک ہر شخص کو کھانسنے اور چھینکنے کا حق حاصل ہے مگر وبائی امراض کے دور میں کھلے عام جراثیم کا سپرے کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جاتی، اس لئے منہ اور ناک ڈھانپنا ضروری ہے۔ اب کولہاپور میں جس شہری کی لوگوں کے ہاتھوں درگت بنی، اس نے اول تو ماسک نہیں پہنا تھا اور دوئم چھینک بھی آزادانہ ماری تھی سو جواب میں عوامی ردعمل کا شکار ہوا۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں شاید تو کل کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ،اس لئے حکومت کی طرف سے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات کے باوجود سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے۔ گورنر پنجاب بھی ایک ایسے اجتماع میں نظر آئے جہاں سینکڑوں افراد موجود تھے۔سراج الحق صاحب کی احتیاطی تدابیر پر زور دینے کی تقریب بھی اجتماع عام تھی۔ خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق نے جیل سے رہائی پر بھی جلوس نکالا۔ اب ان حالات میں صرف بیانات کی حد تک شور تو سب مچا رہے ہیں مگر عملاً حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کیا جا رہا پھر جب کوئی افتاد ٹوٹ پڑے تو سب شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ احتیاط کا خوبصورت مظاہرہ گزشتہ روز وزیراعظم کی میڈیا ارکان سے ملاقات میں نظر آیا، جب تمام شرکاء کو مناسب فاصلے پربٹھایا گیا تھا اور حکومتی عہدیدار بھی دور دور بیٹھے نظر آئے۔ یوں…؎
کیوں دور دور رہندے او حضور میرے کولوں
مینوں دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں
کی عملی حالت سامنے نظر آئی۔ اور جی خوش ہوا۔
٭…٭…٭
بانی متحدہ کیخلاف دہشت گردی کے الزامات ختم نہیں کئے جاسکتے:برطانوی خاتون جج
اب آئی نہ جان شکنجے اندر، وقت کیا کچھ دکھاتا ہے انسان کو۔ اب جو شخص اپنی زبان سے ایسی وارداتوں کا حکم دیتا ہو اور اس فخر کا اظہار کرتا ہو، وہ اب مگرمچھ کی طرح ٹسوے بہا کر مسکین صورت بنا کر عوام اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دہشت گردی میں درجنوں لوگوں اور بے گناہ سیاسی مخالفین کی جانیں لینا ہی جرم نہیں، بانی متحدہ تو وہ خونیں درندہ ہے جس نے اپنے ساتھیوں تک کو نہیں بخشا، ان کا خون بھی پی گیا۔ اب برطانوی عدالت میں انکے خلاف کئی مقدمات زیرسماعت ہیں۔ یہاں تو چارو ناچار انہیں اپنا بھاری بھرکم بوجھ اٹھا کر طوعاً و کراہاً عدالت کے سامنے بھی ہانپتے کاپنتے ہوئے پیش ہونا پڑ رہا ہے۔ اپنے گناہوں کی فروگذاشت بھی اٹھانی پڑ رہی ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ
جب چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستین کا
اب دوران ابتدائی سماعت برطانوی خاتون جج نے بھی ان کا نامہ اعمال دیکھ کر درست کہا ہے کہ ان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اب تو بانی متحدہ جو پہلے ہی کافی پھول کر کپا ہوچکے ہیں، کے ہاتھ پائوں مزید پھول گئے ہونگے کیونکہ اب تو دفتر کھلیں گے ۔ لندن میں تووہ یا انکی جماعت کے کارندے عدالت پر اور ججوں پر دبائو ڈالنے سے رہے۔ وہاں تو رونے گڑگڑانے والی اداکاری بھی کام نہیں آئیگی۔ انگریز ویسے بھی جذبات سے عاری ہوتے ہیں، ان پر مگرمچھ یا سارس کے آنسو اثر نہیں کرتے۔ ہاں اگر سچ سامنے ہو تو وہ اسے تسلیم کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔
٭…٭…٭
مریم پلی بارگین کرلیں، کل کی بجائے آج باہر جائیں:فوادچودھری
یہ فراخدلانہ پیشکش چودھری جی نے نیویارک میں وطن واپسی پر اپنے 3روز کیلئے قرنطینہ میں جانے کے اعلان کے ساتھ کی ہے۔ فواد جی سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں۔ وہ اپنے شعبہ کے بارے میں مہارت رکھتے ہیں یا نہیں ،یہ وہ ہی بہتر جانتے ہوں گے مگر سیاسی امور میں انہیں جو مہارت تامہ حاصل ہے ،وہ ان کے ہر بیان میں جھلکتی محسوس ہوتی ہے۔ اب وہ نیویارک میں ہوں یا لندن میں، کراچی میں ہوں یا اسلام آباد میں ان کا ہر بیان اپنی جگہ سائنسی و سیاسی تشریح کا حامل ہوتا ہے۔ ان کی طرف سے وطن واپسی پر ازخود احتیاط 3روز کیلئے قرنطینہ میں جانے کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کرونا کے مسئلے میں سنجیدہ ہیں۔ اسکے پھیلائو کو روکنے کی کوششوں پر عمل پیرا بھی ہیں۔ اسکے ساتھ انہوں نے لگے ہاتھوں مریم نواز کو بھی آڑے ہاتھ لیا، انہیں لاکھوں کا قیمتی مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ پلی بارگین کرلیں پھر کل ہی کیا آج ہی باہر روانہ ہو جائیں، انہیں کوئی روکے گا نہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ وہ اپنی طرف سے پیشکش کر رہے ہیں یا حکومتی پالیسی بیان کر رہے ہیں۔لگتی تو یہ حکومتی پالیسی ہی ہے کیونکہ کافی لوگ اسی پلی بارگین کے صدقے میں یا تو باہر ہیں یا پھر اطمینان سے ملک کے اندر جیلوں سے باہر ایام کی تلخی کو شیریں بنا کر گھونٹ بھر رہے ہیں۔ امید ہے چودھری جی اس بیان میں ذرا وسعت لا کر باقی اسیران قفس کو بھی اس نعمت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیں گے۔ آگے ان کی مرضی، اس پر عمل کریں یا نہ کریں۔
٭…٭…٭
ایل اوسی پر بھارتی فضائیہ کی مشکوک نقل و حمل اور شدید گولہ باری کا تبادلہ
لگتا ہے گزشتہ برس کا سبق بھارتی فضائیہ کو بھول گیا ہے یا وہ اسے یاد رکھنا نہیں چاہتی، اسی لئے ایک بار پھر اسکے گدِھوں نے ایل او سی پر مشکوک قسم کی حرکات شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ برس جب بھارتی فضائیہ کی دو چیلیں بزعم خویش کنٹرول لائن کراس کرکے ہمیں کرتب دکھانے آئیں، ان میں سے ایک بھی زندہ سلامت واپس اپنے گھونسلے میں پہنچ نہ سکی۔ دونوں کو ہمارے شاہینوں نے فضا ہی میں اُچک لیا اور ان کے بال و پر نوچ ڈالے۔ اس معرکہ میں ہی ابھی نندن نامی کرگس ہمارے ہاتھ لگا اور اس کی عجیب و غریب مونچھیں ابھی تک یاد کرکے ہمارے جوان قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ اسے جلد ہی ہمارے فوجی جوانوں نے بچالیا ورنہ مقامی آبادی اسے بھی بے بال و پر کر دیتی۔ اس کے باوجود اگر بھارتی فضائیہ کسی خوش فہمی کاشکار ہے تو پھر ہم بھی تیار ہیں۔ ویسے بھی ’’یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ اس لئے ہمیں ان سے کوئی ڈر یا خوف نہیں آتا۔ بس یاد رہے کہ اب کی بار شاید ہی کوئی ابھی نندن یا اس کا اُڑن کھٹولہ خاک کا پیوند بننے سے محفوظ رہ پائے گا۔ اس کا بھارتی کرگسوں کو بھی علم ہے ،اس لئے وہ کنٹرول لائن کراس کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔