قومی یک جہتی کا مظاہرہ حالات کااہم تقاضا ہے کہ کوروناوائرس کے پھیلنے سے دنیابھر میں ہلاکتوں کی دس ہزار سے تجاور کرچکی ہے۔ چین، ایران ، اٹلی، امریکہ، برطانیہ ، جاپان ، سعودی عرب، پاکستان اور بھارت سمیت 164 ممالک میں لاکھوں لوگ اس وائرس سے متاثر ہونے کے باعث زیر علاج ہیں۔ یہ مریضوں کی وہ تعداد ہے جن میں کوروناوائرس کی تصدیق ہوچکی، کتنے ایسے کیس باقی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے، اس کا اندازہ لگانامشکل ہے ۔ پاکستان میں کوروناوائرس کے باعث تاحال دو اموات ہوئی ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد چار سو سے زائد بتائی جارہی ہے۔ کوروناوائرس کے بتدریج پھیلائو سے حالات انتہائی توجہ طلب ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم یک جہتی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، بالکل اسی انداز میں جس طرح چین کی حکومت اورعوام نے ایک صفحہ پر ہوکر قابل تقلید مثال قائم کی ہے، برُاوقت قوموں پر آجاتا ہے لیکن مشکل حالات میں بوکھلاہٹ کاشکار ہونا، ہر شخص کااپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانا اورخاص طورپر حکمرانوں کاعجلت میں ایسے اقدامات اٹھائے چلے جانا یا بیانات جاری کرتے چلے جانا حالات میں ارتعاش پیدا کرنے اوربگاڑنے کاباعث بنتا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ پُرامن اور پرسکون رہنے کے ساتھ حالات سے نمٹنے کیلئے سینہ سپر اورچشم کشارہا جائے۔ افواہوں پرکان نہ دھرے جائیں ،ہرخبر کی تصدیق کی جائے،خاص طورپر سوشل میڈیا پربے پرکی اڑانا انتہائی منفی رویہ ہے، اس سے گریز ہرلحاظ سے قومی مفاد میں ہے۔ سیاست کیلئے بہت وقت پڑا ہے، موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ پوری سیاسی لیڈرشپ ذاتی اورپارٹی مفادات سے بالا تر ہوکر کورونا وائرس کاپھیلائو روکنے میں ایک صفحہ پر آجائے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، محترمہ مریم نواز اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے مثبت بیانات دیئے۔ ارباب اختیار خصوصی طورپروزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ کوروناوائرس سے نمٹنے کیلئے بلائے جانے والے اجلاسوں میں مخالف سیاسی دھڑوں کی سرکردہ شخصیات کی شرکت کویقینی بنائیں۔ اس سے ملک میں قومی یک جہتی کو فروغ ملے گا، سیاسی درجہ حرارت کم ہوگا، جس سے حکمرانوں کوبھی یکسوئی سے کام کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ موذی وائرس کے تدارک کیلئے عوام میں شعور بیدار کرنا خاص طورپر علاج سے بڑھ کر پرہیز پرتوجہ دینے کے رجحان کوفروغ دینا مثبت روش ہے تاہم حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے اقدام اٹھانے سے گریز کریں جن سے غربت اوربے روزگاری میں اضافے کا اندیشہ ہو۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہماری معیشت زبوں حالی کاشکار ہے۔ پاکستان معاشی سٹیٹس کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ۔سودی قرضوں کاحجم آسمان کو چھورہاہے۔ 70 فیصد سے زائدعوام معاشی مشکلات کاشکار ہیں جن میں سے پچاس فیصد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس طبقے کی حالت زیادہ قابل رحم ہے جو روزانہ اُجرت پرکام کرکے گزر بسر کرتاہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اور صوبائی وزرائے اعلیٰ یقینا حالات سے آگاہی رکھتے ہوں گے کہ یہ قابل رحم طبقہ معاشی بد حالی کے پل صراط سے گزر رہاہے۔ حکمرانوں کو اس طبقے کی زیادہ فکر ہونی چاہئے ۔بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ متاثرہ لوگوں کی گھر بیٹھے مالی مدد کی جائیگی۔ یہ نعرہ خوش کن توہوسکتا ہے مگرزمینی حقائق اسکے برعکس ہیں۔ غریبوں کو گھر وںمیں مالی امداد یا اشیائے خورونوش پہنچانے کیلئے ہمارے ہاںفرشتے کہاں سے آئینگے؟ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مالی امداد یا اشیائے خورونوش مستحقین تک پہنچنے کے بجائے نام نہاد کاروباری طبقہ کی جیبوں میں چلی جاتی ہیں۔ حکمران کورونا وائرس کے پھیلائو کوروکنے کیلئے اقدامات اٹھائیں لیکن زمینی حقائق پرنظر ضرور رکھیں۔
وطن عزیز پراللہ تعالیٰ کاخاص فضل وکرم ہے ہم جتنے بھی بے عمل ہیں مگر آقائے نا مدارﷺ کی امت میں شامل ہیں۔ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں ذکر الٰہی کرنے اور آپﷺ پر مسلسل درود شریف بھیجنے والوں کی تعداد دنیا بھر سے زیادہ ہے ۔اللہ تعالیٰ رحیم وکریم اورآپﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذکر الٰہی اور درود شریف پڑھنے میں مزید تیز ی لائی جائے۔ حفظان صحت کے اصولوں کی پاس داری یقینی بنائی جائے، گھروں، بازاروں اور شاہراہوں کو صاف ستھرا رکھا جائے ۔ چھوٹے بڑے شہروں میں سیوریج کا نظام فعال کیا جائے تاکہ گندگی نہ پھیلنے پائے ۔ حکمران اگر عوام کو میڈیکل ماسک فراہم کریں اورملک بھر میں سپرے کرانے کا فوری بندوبست کردیں تو کوروناوائرس کا پھیلائو رک سکتاہے ۔ بیرون ملک سے متاثرہ لوگوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ اس کیلئے چاہے سرحدوں پر لاک ڈائون کردیاجائے تاہم اندرون ملک ایسے اقدامات نہ اٹھائے جائیں کہ مفلوک الحال لوگ بھوک اور افلاس کی وجہ سے موت کی وادی میں اترنا شروع ہوجائیں۔ مکھیوں ، مچھروں سے نجات کیلئے ملک بھر میں سپرے کی ضرورت ہے اس پر بار بار توجہ بھی دلائی جارہی ہے مگر حیرت ہے کہ حکمرانوں نے پارلیمنٹ میں تو سپرے کرا لیا مگر غریب عوام کو بھول گئے۔انسانوں میں تفریق کارجحان اچھی بات نہیں ،یہ معاشرے کوطبقات میں تقسیم کرنے کی روش ہے۔ ملک کے ہر شہری کی جان اتنی ہی عزیز ہے جتنی حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کی۔ صرف پارلیمنٹ میں سپرے پراکتفا حکمرانوں کے اس دعوے کی نفی ہے کہ وہ اس برُے وقت میں عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکمران اپنے دعوئوں اور وعدوں کے حوالے سے اللہ سے ڈر یں ،ایفائے عہد کو یقینی بنانے پرتوجہ دیں تاکہ عذاب الٰہی سے بچ سکیں۔ حکمران موجودہ حالات میں عوام کومایوسی کاشکار نہ ہونے دیں۔ زندگی اورموت اللہ کے اختیار میں ہے۔ روزانہ دنیابھر میں طبعی موت مرنے کی والوں کی تعداد کورونا کے باعث لقمہ اجل بننے والوں سے کہیں زیادہ ہے ۔یہ وقت اجتماعی توبہ کا ہے ۔حکمرانوں کو اجتماعی توجہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے، یہ نعرہ ہے تو بڑا سہانا۔ حکمران صرف وعظ و نصیحت سے کام نہ لیں، عملاً میدان میں آئیں اور اللہ سے مدد کی بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی مددگار اوراس وائرس سے نجات بخشے والا ہے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ بحیثیت قوم ہماری خامیوں، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، ہم پراپنی خاص رحمتوں کے دروازے کھول دے اور اپنے حبیب محمدمصطفیٰﷺ کے صدقے ہمیں معاف فرمادے اور ہمیں کورونا سمیت تمام روحانی اور جسمانی بیماریوں سے نجات بخش دے اور ہمیں اپنا شکر بجالانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ثم آمین
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024