یوم پاکستان سے دو روز قبل بھارتی عدالت سے سمجھوتہ ایکسپریس کیس کے ہندو ملزمان کی بریت اور دفتر خارجہ کا بھرپور احتجاج
بھارت کی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکہ سے اڑانے کے مرکزی ملزم سوامی آنند سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ دہشت گردی کی اس واردات میں 43 پاکستانی مسافروں سمیت 69 مسافر جاں بحق ہوئے تھے جبکہ ہندو انتہاء پسند دہشت گردوں نے بطور خاص ٹرین کی اس بوگی کے اندر پٹرول پھینک کر آگ لگائی جس میں 43 پاکستانیوں سمیت تمام مسلمان مسافر موجود تھے۔ 2007ء میں ہونیوالی اس سفاکانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والی سمجھوتہ ایکسپریس پاکستانی اور بھارتی مسافروں کو لے کر اٹاری جارہی تھی جس میں ملوث ملزمان کیخلاف موقع کے گواہوں کے بیانات سمیت ٹھوس شواہد بھارتی شہر پنجگولا کی ایک عدالت میں پیش کئے گئے مگر عدالت نے انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے تمام ملزمان کو بری کرکے بھارت کا ہندو انتہاء پسند ریاست کا سیاہ چہرہ مکمل بے نقاب کر دیا۔ عدالت نے اس مقدمے کے پاکستانی گواہوں کو واپس بھجوانے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان نے بھارتی عدالت کے اس فیصلہ کو متعصبانہ اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ بھارت اس دہشت گردی میں شہید ہونیوالے 43 پاکستانیوں کے اہلخانہ کو کیا جواب دیگا۔ انہوں نے اس معاملہ میں پاکستان کی جانب سے جلد تفصیلی بیان جاری کرنے کا بھی عندیہ دیا جبکہ بھارتی عدالت کے اس فیصلہ کے بعد بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ اسلام آباد میں طلب کرکے ان سے متذکرہ فیصلہ کیخلاف باضابطہ احتجاج کیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بقول پاکستان سانحۂ سمجھوتہ ایکسپریس میں عدم پیش رفت کا معاملہ اٹھاتا رہا ہے جبکہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھی پاکستان نے بھارتی حکام کے روبرو یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ اس سانحہ کے 12 سال بعد ملزمان کی بریت انصاف کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ سیکولر ہونے کی دعوے دار ہندو انتہاء پسند ریاست بھارت میں اقلیتوں کیلئے میرٹ‘ انصاف اور ہر شہری کو مساوی حیثیت دینے والے قوانین کی عملداری کے تمام راستے بند کئے جاچکے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو تو بطور خاص اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ برتری کے زعم میں مبتلا ہندوئوں کے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو ہندوستان کے مسلمانوں نے ہی قیام پاکستان کی ولولہ انگیز جدوجہد کے ذریعے ناکام بنایا تھا اور ہندو لیڈروں کے خواب چکناچور کئے تھے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ خطۂ ارضی کی ضرورت بھی اس لئے محسوس کی تھی کہ ہندوئوں نے برطانوی سامراج کے ساتھ ملی بھگت کرکے ان کیلئے اچھی تعلیم‘ ملازمت اور مذہبی آزادیوں کے تمام دروازے بند کر دیئے تھے جن کا اقتصادی استحصال بھی کیا جاتا تھا اور مذہبی فرائض ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی جبکہ گائے ذبح کرنے پر ہندو جنونیوں کی جانب سے مسلمانوں پر بلوئوں اور انکے قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا تھا۔ اس صورتحال میں ہندوستان میں دو قومی نظریے کا احیاء ہوا جس کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ ارضی کی ضرورت کا ادراک کیا جس کیلئے علامہ اقبال نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کیلئے ایک خودمختار ریاست کا 14 نکاتی منشور جاری کیا اور انکے انتقال کے بعد قائداعظم محمدعلی جناح نے 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر باقاعدہ طور پر تحریک پاکستان کا آغاز کیا جس کی بنیاد دوقومی نظریے پر ہی استوار ہوئی۔ اس پرامن اور جاندار تحریک کے نتیجہ میں ہی برطانوی سلطنت ہندوستان کو برطانوی راج سے آزاد کرنے کے فیصلہ میں تشکیل پاکستان کی شق بھی شامل کرنے پر مجبور ہوئی۔ اسکے برعکس ہندو لیڈرشپ تو اکھنڈ بھارت کے تصور کو عملی قالب میں ڈھالنے کیلئے پورے برصغیر پر اپنا تسلط جمانے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ یہ خواب تشکیل پاکستان نے چکناچور کردیئے چنانچہ اکھنڈ بھارت کا ایجنڈا رکھنے واگلے ہندو انتہاء پسندوں نے قیام پاکستان کے پہلے دن سے ہی اسکے ساتھ دشمنی کی بنیاد رکھ دی اور اسکی سلامتی کو کمزور کرکے دنیا کے نقشے سے غائب کرنا اپنا ایجنڈا بنالیا۔ قیام پاکستان سے اب تک بھارت میں کانگرس اور بی جے پی سمیت جو بھی پارٹی برسراقتدار آئی اس نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کو فروغ دینا اپنی حکومت کا ایجنڈا بنائے رکھا۔ نتیجتاً بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے موقع کی تاک میں رہا اور اس موقع کا بھی اس نے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر پر تقسیم ہند کے ایجنڈا کے برعکس اپنا تسلط جما کر خود ہی اہتمام کیا جس سے پاکستان بھارت تنازعات کا آغاز ہوا تو اسکی آڑ میں وہ پاکستان کی سلامتی پر وار کرنے کیلئے باقاعدہ جنگ کے مواقع نکالتا رہا جبکہ تیسری جنگ میں بھارت کو 1971ء میں اپنی پروردہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کی معاونت سے پاکستان کو دولخت کرنے کا موقع بھی مل گیا جس کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ متعصب ہندو لیڈران نے دو قومی نظریہ ڈبویا نہیں بلکہ ہمہ وقت زندہ رکھا ہے جس کی بنیاد پر بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا جانے لگا اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کا نیا سلسلہ بھی پروان چڑھایا جانے لگا۔ اس معاملہ میں ہندو لیڈروں کا بنیادی مقصد پاکستان سے اکھنڈ بھارت کا طلسم توڑنے کا انتقام لینا تھا جس کیلئے ہندو غلبے کی حامل تمام بھارتی جماعتیں یکسو رہیں جنہوں نے پاکستان دشمنی کو فروغ دینا بھارت کے سرکاری ایجنڈے کا حصہ بنالیا اس لئے بھارت میں کانگرس کی حکومت میں ہو یا بی جے پی حکمران ہو‘ اسکی پاکستان دشمنی کی پالیسی برقرار رہی ہے اور ہر بھارتی حکومت اپنے اس ایجنڈے کے تحت پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کیلئے کسی بھی سطح کے مذاکرات کی میز خود ہی رعونت کے ساتھ الٹاتی رہی ہے اور مختلف بھارتی ریاستوں بشمول گجرات میں مسلمانوں پر حملے اور انکی املاک تباہ کرنیوالے ہندو انتہاء پسندوں کی سرکاری سرپرستی کی جاتی رہی ہے۔
2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس پر ہندو انتہاء پسندوں کے حملے کے وقت کانگرس آئی برسراقتدار تھی جبکہ بھارتی سرونگ کرنل پروہت حملہ کرنیوالے ہندو انتہاء پسندوں کے اس گینگ کے سرغنہ تھے چنانچہ اس حملے میں ملوث ہندوئوں کو بچانے کیلئے تمام انسانی اقدار اور انصاف کے تقاضوں کو تہہ و بالا کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا جس میں ہندو ریاست کے زیرغلبہ بھارتی عدالت سے انصاف کی توقع کرنا ہی عبث تھا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس حملے کی تحقیقات کرنیوالے بھارتی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کرکرے کو دسمبر 2008ء میں ہونیوالے ممبئی حملوں کے موقع پر گولیوں سے بھون کر اسکی تحقیقاتی رپورٹ کی بھی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور ممبئی حملوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر نئی دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی بساط بھی الٹا دی گئی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پاکستان واپس دھکیل کر پاکستان کو کشمیر بھول جانے کا درس دیا گیا جبکہ بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو پاکستان سے مذاکرات بحال کرنے کی خواہش کے اظہار کے باوجود ہندو تعصب کی موجودگی میں دوطرفہ مذاکرات کے دروازے کھولنے کی اپنے پورے دور اقتدار میں جرأت نہ ہوسکی۔ گزشتہ انتخابات میں ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ بی جے پی برسراقتدار آئی تو نریندر مودی نے بھارتی وزیراعظم کا منصب سنبھالتے ہی پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنا شروع کر دیا اور سرحدی کشیدگی انتہاء کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھی مظالم کا نیا سلسلہ شروع کردیا۔ مودی چونکہ مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملی حصہ لینے کا تفاخرانہ اعتراف کرچکے ہیں جو وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت میں اپنی ریاست میں مسلم کش فسادات کے بھی محرک ٹھہرائے جا چکے ہیں اس لئے وہ پاکستان دشمنی کیلئے خود کو بے نقاب کرنا بھی اپنا اعزاز گردانتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انکے دور اقتدار میں بھارت کا ہندو انتہاء پسند ریاست کا مکروہ چہرہ کھل کر اقوام عالم کے سامنے آیا جو اب آئندہ ماہ کے انتخابات میں بھی اپنی پارٹی کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ دشمنی کو بڑھا رہے ہیں۔ پلوامہ حملہ سے اب تک مودی سرکار پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہذیانی کیفیت نظر آرہی ہے جس نے اشتعال بڑھا کر پاکستان کو جوابی کارروائی پر مجبور کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور اپنے دو جہازوں کے پاک فضائیہ کے ہاتھوں مار گرائے جانے کے باوجود اشتعال بڑھانے سے گریز نہیں کیا جارہا۔ اس طرح مودی سرکار محض اپنے اگلے اقتدار کی خاطر علاقائی اور عالمی امن تباہ کرنے پر تلی بیٹھی نظر آتی ہے۔ اس صورت میں دفاع وطن کی تیاریاں مکمل رکھنا پاکستان کی ضرورت بن گیا ہے جس کیلئے آج سول اور عسکری قیادتوں سمیت پوری قوم مکمل تیار اور یکسو ہے اور گزشتہ روز چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی قیادت میں مسلح افواج کے تینوں سربراہان کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں بطور خاص بھارتی اشتعال انگیزیوں اور اسکے جارحانہ عزائم و اقدامات کا جائزہ لے کر دفاع وطن کی ٹھوس حکمت عملی طے کی گئی ہے۔
اس وقت جبکہ یوم پاکستان کی پرجوش تقریب کی تیاریاں کرکے ملک کی سول اور عسکری قیادتیں ملک کے دفاع کیلئے اپنی بھرپور اہلیت کا دشمن کو ٹھوس پیغام دے رہی ہیں۔ عین اس موقع پر بھارتی عدالت نے مودی سرکار کے ایجنڈے کے مطابق سمجھوتہ ایکسپریس کے 12 سال پرانے کیس کے تمام ملزموں کو بری کرکے پاکستان دشمنی کو فروغ دینے کے مودی سرکار کے ایجنڈے کو مزید تقویت فراہم کی ہے۔ یہ فیصلہ انصاف کی عملداری پر ایک بدنما داغ ہے جس پر دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے بجا طور پر اور بروقت سخت احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی عدالت کے اس متعصبانہ فیصلے کو فوری طور پر عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جائے اور وہاں پاکستانی مسافروں پر مشتمل وہ تمام موقع کے گواہ پیش کردیئے جائیں جو وقوعہ کے وقت خوش قسمتی سے بچ نکلے تھے۔ بھارتی عدالت نے یہ موقع کی گواہی قبول نہ کرکے بھی انصاف کا قتل کیا ہے اس لئے بھارتی عدلیہ کا تعصب بھی دنیا کے سامنے اجاگر کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے مکار دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کی ضرورت ہے۔