پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرمین آصف زرداری نے جعلی اکائونٹس کے حوالے سے پارک لین کمپنی کیس میں نیب کی 16 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرا دیا۔ پیشی کے موقع پر اسلام آباد کا نادرا چوک میدان جنگ بن گیا۔ پی پی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کے دوران 6 اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ درجنوں جیالوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔
نیب نے آصف زرداری اور بلاول کو پارک لین کیس میں طلب کر رکھا تھا۔ چیئرمین اور شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی دونوں وقت مقررہ پر نیب آفس پہنچ گئے۔ ایسے مواقع پر اکثر کارکن لیڈرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے چلے آتے ہیں اور ہنگامہ آرائی بھی ہو جاتی ہے مگر اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ نیب کی طرف سے حفاظتی اقدامات کی درخواست پر انتظامیہ کی طرف سے فول پروف انتظامات ہونے چاہئیں تھے۔ کارکنوں کو ایک حد سے آگے جانے سے روکنے کے لیے بیرئیر لگائے جا سکتے تھے۔ سکیورٹی لیپس کی وجہ سے پولیس اور پی پی پی کارکنوں کے مابین محاذ آئی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ جذباتی کارکن پولیس تشدد سے مشتعل ہوگئے جس سے نمٹنے کے لیے پولیس نے جو کچھ کیا اس سے آمرانہ دور کا طرز عمل نمایاں ہوا۔ 70 افراد کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس ہنگامہ آرائی میں 6 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پولیس پر تشدد بھی قابل مذمت ہے۔ ا گر سکیورٹی کے مناسب انتظامات کئے گئے ہوتے تو اس ناخوشگوار صورتِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔ ایسے مواقع پر مناسب سکیورٹی ضرور ہونی چاہئے۔ اس کے ساتھ سیاسی رہنماء اداروں میں پیشی کے مواقع پر لائو لشکر لانے اور طاقت کے اظہار سے گریز کریں۔بیان ریکارڈ کرانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں نیب کا کالا قانون ختم نہ کر کے غلطی کی یہ ہماری کمزوری تھی ہم اقتدار میں آ کر آمر کا بنایا ہوا ہر کالا قانون آئین سے نکال دیں گے۔ نیب کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں، نیب قوانین کی عموماً حکومت میں ہوتے ہوئے حمایت اور مقدمات درج ہونے پر ان قوانین کو کالا کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے بنائے قوانین میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ نیب کے مروجہ قوانین کی کسی طرف سے بے جا حمایت یا مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ جہاں ضروری ہو قوانین میں بہتری ضرور لائی جاسکتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024