جمعۃ المبارک ‘ 14 ؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 22؍ مارچ 2019ء
میاں نوازشریف نے جیل میں گاڈ فادر کا مطالعہ شروع کردیا
بڑے بڑے سیاسی رہنما عام طور پر مطالعے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ان کی ذاتی لائبریریاں کتابوں سے بھری ہوتی ہیں جہاں بیٹھ کر وہ گھنٹوں مطالعہ کرتے ہیں کئی عالمی رہنما تو جب تک بستر پر کسی کتاب کا مطالعہ نہ کر لیتے سوتے ہی نہیں تھے۔ کوئی نہ کوئی علمی، ادبی کتاب ان کے سرہانے دھری رہتی تھی۔ اب ہمارے میاں نوازشریف کے بارے میں معلوم نہیں کہ انہیں مطالعہ سے لگاؤ ہے یا نہیں۔ مگر جیل میں ان کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں، اب پتہ چلا ہے کہ وہ آجکل کل ناول ’’گاڈ فادر‘‘ پڑھ رہے ہیں۔ انہیں سزا سنانے والے منصفوں نے انہیں اس نام سے پکارا تھا۔ میاں صاحب نے سوچا ہوگا چلو اب پڑھ ہی لیں کہ یہ گاڈ فادر آخرتھا کیا بلا ۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ اگر سہولت دستیاب ہو تو وہ اس مشہور زمانہ ناول پر بنی انگریزی فلم کو بھی لگے ہاتھوں دیکھ لیں اس طرح انہیں یہ سارا ناول حقیقی انداز اختیار کرنا بھی نظر آئے گا۔ اس طرح انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ انہیں گارڈ فادر درست کہا گیا تھا یا کسی اور وجہ سے، ویسے میاں جی پر یہ لفظ سوٹ نہیں کرتا۔ گاڈ فادر انڈر ورلڈ کا بادشاہ ہوتا ہے۔ میاں جی تو کھلے عام سیاست کرتے رہے۔ حکمرانی کے جھولے پر جھولتے رہے ان کی طرف لاکھوں نگاہیں ہمہ وقت لگی رہتی تھیں۔ حقیقت میں تو گاڈ فادر کو اس کے اردگرد کے لوگ بھی نہیں جانتے اور نہ ہی پہچانتے تھے وہ ایک پُراسرار شخص ہوتا ہے جس کے جبر و خوف کے سامنے کوئی لب نہیں کھولتا۔ میاں صاحب کے تو اقتدار میں بھی میڈیا سے لے کر موجودہ وزیراعظم اور ان کے دیگر مخالفین تک ان کا بینڈ بجاتے رہتے تھے۔ کوئی بندہ بھی ان سے خوفزدہ نہیں تھا۔ اب کہیں ناول پڑھ کر وہ سچ مچ سفاک گاڈ فادر نہ بن جائیں۔
……………
غیر ملکی سمگلر حسینہ کو 8 برس قید و جرمانہ
عدالت میں یہ فیصلہ سننے کے بعد وہ غیر ملکی ماڈل تو پہلے سکتے میں آ گئی پھر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ اب معلوم نہیں انہیں رونا سزا پر آیا یا اس بات کہ ان کا شریک ملزم کیسے جادوگری دکھاتے ہوئے بری ہو گیا۔ پورے کیس میں اس کا ذکرِ خیر کہیں بھی نہیں ملتا، ویسے ہی جس طرح ایان علی کیس میں ان کے ساتھ گرفتار شریک ملزم کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اس غیر ملکی ماڈل کو پاکستان لایا کون یہ کس کے ساتھ رابطہ میں تھی، اس کو منشیات کس نے خرید کردیں۔ جب تک یہ سب راز پردہ میں ہی رہیں گے تب تک ایان علی ہو یا ٹریزا کیس۔ ان کے حقیقی مجرم محفوظ اور آلہ کار بننے والے سزا پائیں گے۔ اب حکومت ہی کوئی راہ نکالے اور ابھی نندن کی طرح عالمی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لئے اس غیر ملکی ماڈل کی سزا میں کمی کرے ورنہ خطرہ ہے کہ پاکستانی جیلوں میں وہ جو کچھ دیکھیں گی سیکھیں گی۔ اس کے بارے میں انہوں نے رہائی کے بعد یورپ میں جا کر کوئی کتاب حالات و واقعات اور مشاہدات پر لکھ ڈالی تو وہ کتاب ہاٹ کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکے گی اور ہماری جو سُبکی ہوگی وہ علیحدہ موضوع ہے۔ اب اس ماڈل کے ان دیکھے مربی خود ہی کوئی تگڑا سا وکیل کر کے بڑی عدالت سے کوئی نرمی دلا دیں تو شاید اس ماڈل کی جان میں جان آئے ورنہ آٹھ سال آٹھ ماہ کی قید کے بعد تو یہ حسین ماڈل کی بجائے ’’کھٹارا ماڈل‘‘ بن جائیں گی۔ سب ’’ڈالر گرل‘‘ ایان علی کی طرح خوش قسمت ماڈل تو نہیں کہ جیل اور حوالات میں بھی اسے بیوٹیشن میسر تھے اور مہنگے لباس بھی …!!!
…………
’’جنگلات کے معاملے میں سندھ حکومت بے بس دکھائی دیتی ہے‘‘: سپریم کورٹ
پاکستان میں جنگلات کی کٹائی ایک بلا کی طرح درختوں کا صفایا کر رہی ہے ہر طرف ٹمبر مافیا کا راج ہے جو سرکاری اداروں کا منہ گھی شکر سے بند کر دیتا ہے اور اربوں روپے مالیت کی لکڑی کا دھندا کر رہا ہے۔ اس وقت کسی بھی ملک کا 21 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہونا چاہئے تو وہ سرسبز کہلانے کا حقدار ہے۔ مگر ہمارے ہاں قدرتی وسائل موسم اور پانی کی دستیابی کے باوجود جنگلات کا رقبہ صرف 4 فیصد تک محدود ہے۔ حکومت لاکھ سرسبز پاکستان مہم میں ایک ارب درخت لگانے کے خواب دکھائے جب تک ٹمبر مافیا پر قابو نہیں پایا جائے گا یہ ایک ارب درخت بھی کم پڑ جائیں گے۔ سندھ میں تو عدالت عظمیٰ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ’’حکومت جنگلات کا صفایا کرنے والوں کے سامنے بے بس ہے‘‘ صرف سندھ ہی کیا یہی حال پنجاب اور خیبر پی کے میں بھی ہے۔ ہر طرف ٹمبر مافیا جال بچھائے موجود ہے۔ کوئی سرکاری ادارہ ان سے بچ نہیں پاتا۔ قیمتی جنگلات کا صفایا ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کو سخت قوانین بنانے کے ساتھ ایسے قومی مجرموں کو کڑی سزا دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ہر پاکستانی اگر اپنے گھر میں ایک درخت لگائے۔ اگر جگہ نہیں تو اپنے پیاروں کی تدفین کے وقت اس کی قبر پر ایک پودا لگائے۔ اسی طرح کونسلر حضرات خالی جگہوں پر محلہ داروں کی مدد سے چند ایک درخت لگائیں۔ تو حکومت کی مدد کے بغیر بھی ہم اپنے شہروں کو، دیہات کو سرسبز و شاداب بنا سکتے ہیں۔ یہی جنگلات کے عالمی دن کا پیغام تھا جو گزشتہ روز خاموشی سے گزر گیا اور ہم ایک ارب درخت لگانے کا ساز بجاتے رہے۔ کوئی دیکھے تو جو سالانہ کروڑوں درختوں کی شجر کاری ہوتی ہے آخر اس کے درخت کہاں جاتے ہیں…!!!
…………
لاہور میں ڈیف کرکٹرز کا احتجاجی مظاہرہ
جب مطالبات پورے نہ ہوں، کوئی شنوائی نہ ہو رہی ہو تو لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لاہور میں تو آئے روز احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جنہیں اور کچھ بھی نہیں آتا، وہ بھی احتجاج کرنے نکل پڑتے ہیں کہ چلو یہ ہی کر کے دیکھتے ہیں۔ مسئلہ کسی کا بھی ہو مظاہرے میں مجمع لگانے والے خودبخود جمع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت لاہور میں کئی روز سے محکمہ ہیلتھ کی خواتین ملازم مال روڈ پر اسمبلی ہال کے سامنے مورچہ بند ہیں مگر ان کی آواز اس اسمبلی تک نہیں جا رہی جہاں بیٹھے ممبران اپنی تنخواہ تو بڑھانے کا بل چند منٹوں میں منظور کر لیتے ہیں مگر ان کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ اس دھرنے کی وجہ سے مال روڈ پر غضب کا رش لگتا ہے مگر لوگ بھی عادی ہو چکے ہیں۔ شاید وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایک اور مال روڈ بنایا جائے دھرنے والوں یا گزرنے والوں کے لئے۔ گزشتہ روز ڈیف کرکٹ کے کرکٹرز نے پی سی بی کے خلاف لبرٹی چوک میں مظاہرہ کیا۔ یہ بیچارے زیادہ مجمع تو نہ لگا سکے کہ ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا مگر ان کا مطالبہ ذاتی نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ڈسٹرکٹ سطح پر ختم کی جانے والی کرکٹ ایسوسی ایشنوں کو بحال کرے کیونکہ انہی سے اچھے کھلاڑی سامنے آتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ان کا یہ خالصتاً مبنی برحق مطالبہ کون سنتا ہے یا تسلیم کرتا ہے؟