منتخب خواتین اراکین جنسی امتیاز کاشکار
پاکستانی معاشرے میںخواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بے پناہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ان کی کامیابی کے راستے میں کئی رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں، جو اکثر اوقات ان کو آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ یہاں تک کہ منتخب ایوانوں میں بھی خواتین اراکین اسمبلی اپنے ساتھی مرد اراکین اور سرکاری اداروں کی جانب عدم مساوات سے نبردآزماہیں۔ اکثر اوقات خواتین اراکین کو اسمبلی کی کاروائی کے دوران ہی مرد اراکین کی جانب سے نامناسب الفاظ سننے کو ملتے ہیں ، جیسا کہ سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں کئی مرتبہ ہوا ہے۔یا پھر ایوان کی مختلف کمیٹیوں میں خواتین سے سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا۔ قومی و صوبائی منتخب ایوانوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک طرف خواتین اراکین کے تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، اور ان کے طرز حکمرانی و شہریت کے استحقاق سے متعلق سماجی وسیاسی نقطہ نظر میں مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں، مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک خواتین ارکین منتخب ایوانوں میں مساوات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔جس کی سب بڑی وجہ خواتین کا مخصوص نشستوں پر انتخاب بھی ہے، اور جو اراکین براہ راست مختلف انتخابی حلقوں سے منتخب ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پر برتری کا شکار ہوتے ہیں ،جس کااظہار وہ اکثر اوقات کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مختلف ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص کیئے جاتے ہیں، جو اراکین اپنے حلقہ انتخاب کے ترقیاتی کاموں پر سالانہ بجٹ کے موقع پر رکھواتے ہیں۔ مگر مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین اراکین کے لیے ان فنڈز میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اکثر کھلم کھلا اس بات کا ذکر بھی کیا جاتا ہے کہ چونکہ خواتین اراکین کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا اس لیے ان کو فنڈز کیوں دیئے جائیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میںکوئی بھی سیاسی جماعت عام انتخابات میں خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری ہی نہیں کرتی اس لیے ان کا براہ راست انتخابی حلقوں سے منتخب ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر کچھ خواتین براہ راست منتخب ہوکر بھی آئی ہیں پھر بھی ان سے برابری کا سلوک نہیں ہوتا۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بیش تر تنظیموں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ خواتین اراکین کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے، جو کہ ایوان کی کل نشستوں کا 33فی صدہونا چاہیئے مگر بدقسمتی سے اس مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ پاکستان نے انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کئی بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیئے ہوئے ہیں، جس میں سب سے اہم اقوام متحدہ کا خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کا کنوینشن سرفہرست ہے جس میں حکومت پاکستان نے وعدہ کیا ہو ا ہے کہ خواتین اور مردوں کے درمیان مساوات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی و آئینی بنیاد فراہم کرے گی ، تاکہ خواتین کو زندگی کے ہرشعبے میں تک رسائی اور سیاسی و عوامی زندگی ، بشمول ووٹ دینے اور انتخابات لڑنے کے حق کے ساتھ ساتھ تعلیم روزگار کے حصول، ریاستی اداروں کی قانون سازی اور حکومتی اقدامات میں برابر کی شریک ہونے کے مواقع مہیا کرنے کو یقینی بنائے گی تاکہ خواتین اپنے تمام حقوق اور بنیادی آزادیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ ان سب بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازمیں کمی نہیں دیکھنے میں آرہی اور اس وقت بھی تمام منتخب ایوانوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں صرف17فی صد ہیں۔ایک قومی غیر سرکاری ادارے کی جانب سے کی گئی ایک تحقیقی میں مرد اراکین اسمبلی کا خواتین ارکین سے رویوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیاہے۔اس تحقیق کے مطابق کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منتخب خواتین اراکین کی قانون سازایوانوں میں کارکردگی خاصی بہترہوئی ہے اور ان کی سیاسی معاملات میں شرکت داری بڑھی ہے ۔ مگر اکثر خواتین اراکین جو مخصوص نشستوں کی وجہ سے ایوان میں شامل ہوئی ہیں اکثر مضحکہ خیز رویہ کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ چونکہ وہ کسی جغرافیائی حلقہ انتخاب سے منتخب ہوکر نہیں آئیں اس لیے ان کی حیثیت حلقوں سے منتخب اراکین کے مقابلے میں کم تر ہے۔ اراکین کے لیے مختص ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز پر بھی ان کے استحقاق پر سوال اٹھائے جاتے ہے، جب کہ مرد ا راکین کے لیے وہی فنڈز باقاعدگی سے دستیاب ہوتے ہیں، جن سے وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرواتے ہیں ۔ اسی طرح خواتین اراکین کے ایوانوں میں اہم عہدوں پر تقرری کے سلسلے میں بھی ہچکچاہت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی خواتین اہم عہدوں پر اپنی کارکردگی احسن انداز سے دکھا چکی ہیں یا اب بھی دکھا رہی ہیں جیسا کہ سندھ اسمبلی میں شہلا رضا دو مرتبہ ڈپٹی اسپیکرمنتخب ہوچکی ہیں اور کئی خواتین اراکین وزارتیں سنبھال رہی ہیں۔اکثر خواتین اراکین اسمبلی مختلف پارلیمانی کمیٹیزکی سربراہ اور پارلیمانی سیکریٹریز بھی رہ چکی ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرد اراکین کی جانب سے اسمبلی کی ساتھی خواتینکے ساتھ رویئے میں خاطر خواہ بہتری نہیں آئی ۔ مر د اراکین اسمبلی کے اجلاس کے دوران، کمیٹیز یا سرکاری ملاقاتوں کے دوران خواتین اراکین کے بارے میں نازیبا تبصرے کرتے ہیں جن پر بعد میں ان کو ایوان میں معافی بھی مانگنی پڑتی ہے۔ مرد اورخواتین دونوں قسم کے اراکین اسمبلی کی واضح اکثریت کے خیا ل میں خواتین منتخب اراکین کی سیاسی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی گھریلو ذمہ داریاں ہیں۔اس تحقیقی رپورٹ کے لیے کیئے گئے سروے کے دوران کسی بھی ایک جواب دہندہ مرد رکن اسمبلی نے منتخب خواتین اراکین کو ان کی سیاسی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے خاندان کی سطح پر ان کی گھریلو ذمہ داریاں بانٹنے پر رضامندی کا اظہار تک نہیں کیا ۔ان کے خیا ل میںگھرکی ذمہ داری صرف خواتین ہی کی ہے، اور مردوں کو ان کی مددکرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان سب حقائق کے باوجود خواتین منتخب اراکین کی اکثریت اب کافی باشعور ہو گئی ہے اور ان میںاب یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ مرد اراکین کے برابرسیاسی دائرہ اختیارکا استحقاق رکھتی ہیں۔