استحکام پاکستان۔۔۔۔(قسط نمبر: 2)

مسلمان قر آن کومضبوطی سے تھامیں ، اپنے دینی تقاضے پورے کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں سربلندی اور عزت عطا کرے گا ۔دنیا میں اقتدار ،غلبہ اور شہرت سب کچھ ملے گا اور اگر دین ،قرآ ن سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ ذلیل وخوار کرے گا۔ہم اگر رسول ہاشمی ﷺ کی امت میں سے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیںتو پھرہمیں اپنی آنکھیں کھولنی پڑیں گی کہ اس ملک کی بقائ، اس کی ترقی ،اس کی عزت اسلام کو قائم کرنے اوراس کے تقاضے پورے کرنے میں مضمر ہے۔
پاکستان کا وجود کسی معجزے سے کم نہیں ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاﺅں اورقربانیوں کے نتیجے میں ہمیں عطاکیا تھا۔ہم نے بحیثیت قوم اللہ سبحانہ¾ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھاکہ اگر تو ہمیں انگریز کی غلامی اور ہندو کی بالا دستی سے نجات دلا کر ایک آزاد خطہ عطا کرے گاتو ہم لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر ایک اجتماعی نظام قائم کرکے دنیا کے سامنے ایک مثالی اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کریں گے۔جبکہ زمینی حقائق یہ تھے کہ بظاہر مسلمانوں کے لیے کسی آزاد خطے کے حصول کا دور دور تک کوئی امکان تھا ہی نہیں۔مسلمانوں نے آٹھ سو سال برصغیر پر حکومت کی ۔ اس کے بعد انگریز آئے اور مسلمان کمزور ہو گئے۔ انگریزوں نے ہندوو¿ں کو ہر سطح پر سپورٹ کیا ، انہیں مسلمانوں پر ترجیح دی اور ہر شعبے میں ان کو آگے بڑھایا ۔ چنانچہ ہندو انگریز کی مدد سے تعلیم ، روزگار ، معیشت سمیت تمام شعبوں میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے ۔اس کے ساتھ ہی ساتھ انگریزوں نے ہندوو¿ں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی ۔انہیں بتایا گیا کہ باہر سے آئے ہوئے مٹھی بھر مسلمانوںنے تم پر آٹھ سو سال حکومت کی جو کہ تمہارے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم تھا ۔حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا ، مسلمانوں کی حکومتوں میں اوپر کے لیول پر اگرچہ بادشاہی نظام تھا لیکن نیچے کی سطح پر شرعی نظام رائج تھا ۔عدالتیں اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کرتی تھیں لہٰذا ہندوو¿ں کے ساتھ رواداری برتی جاتی تھی اور وہ مسلمان حکومتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔اس وقت ہندوو¿ں کو مسلمانوں سے کوئی شکایت نہیں تھی ۔یہی وجہ تھی کہ 1857ءکی جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ تھے ۔مگر بعد میں انگریزوں نے عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے devide and ruleکے فارمولے کے تحت ہندوو¿ں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا تحت اور اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے برصغیر کی تاریخ کو بھی مسخ کر کے اپنی مرضی کی تاریخ مرتب کی جس میں مسلمانوں کو ظالم ، جابر اور غاصب ظاہر کیا گیا ۔چنانچہ ہندو کسی صورت میں بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بن جائے ۔ان کا سب سے بڑا قائد گاندھی تھا ، جو کہتا تھا کہ پاکستان میری لاش پرہی بن سکتا ہے ورنہ نہیں ۔ان حالات میں جبکہ انگریز ، ہندو اور مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ پاکستان بننے کے خلاف تھا ، پاکستان کے بن جانے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔لیکن سورة الانفال میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
”اور یاد کرو جبکہ تم تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے‘تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اُچک لے جائیں گے‘ تو اللہ نے تمہیں پناہ کی جگہ دے دی اور تمہاری مدد کی اپنی خاص نصرت سے اور تمہیں بہترین پاکیزہ رزق عطا کیا‘ تاکہ تم شکر ادا کرو۔“(آیت :26)
یہ آیات اصلاً تو مکہ کے مسلمانوں کے لیے اُتری تھیں لیکن وہی الفاظ پاکستان کی تاریخ پر بھی منطبق ہو رہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بالکل مسلمانان ِ پاکستان کو مخاطب کیا جارہا ہے ۔یہ بھی برصغیر میں قلیل تعداد میں ہونے کی وجہ سے دبا لیے گئے ، انگریز اور ہندو دونوں ان کے دشمن بن گئے تھے اور انہیں اندیشہ تھا کہ دشمن انہیں صفحہ¿ ہستی سے ہی مٹا ڈالیں گے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ہندووں نے برصغیر میں شدھی اور سنگھٹن تحریکیں شروع کر رکھی تھیں جن کا واحد مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو ازم میں لایا جائے ۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ باہر سے تو تھوڑے ہی مسلمان آئے ہیں ، باقی یہیں کے مقامی لوگ ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں ۔ لہٰذا ہندو اب ان کو دوبارہ ہندومت میں لانے کی بھرپور پلاننگ کر رہے تھے ۔ یہ تحریکیں برصغیر میں بڑے زور وشور سے شروع ہوئیں اور اس کے نتیجے میں کافی مسلمان ہندو بن گئے تھے ۔خاص طور پر میوات کے علاقے میں یہ تحریک بڑی کامیاب جارہی تھی۔ (جاری ہے )