جمعرات‘ 4 ؍ رجب المرجب ‘ 1439 ھ ‘ 22 ؍ مارچ 2018ء
پی ایس ایل میچ، آخری بال پر پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹر سے فتح چھین لی۔
لاہور میں پی ایس ایل کے پہلے سنسنی خیز مقابلے کے روز جس طرح بادل چھائے، بوندا باندی اور ہلکی بارش وقفے وقفے سے ہوتی رہی، ایسے موسم میں لاہوری منچلے تو اور بارش ہونے کی دعا مانگتے ہیں تاکہ سہانا موسم کچھ دن اور برقرار رہے مگر پی ایس ایل میچ کی وجہ سے لاہوری دعا مانگتے رہے کہ بارش تیز نہ ہو اور وہ میچ دیکھنے سے محروم نہ ہوں۔ پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹر کا یہ میچ یادگار میچوں میں سے ایک تھا۔ آخری گیند تک ہزاروں شائقین سٹیڈیم میں اور لاکھوں شائقین ٹی وی کے سامنے دم بخود بیٹھے رہے۔ کوئٹہ کی ٹیم اس میچ میں بھی ہمیشہ کی طرح جم کے کھیلی، کھلاڑیوں نے جان لڑا دی مگر گزشتہ سال کی طرح اس برس بھی دو چار ہاتھ آ کر لب بام رہ گیا، فتح کا تاج سر پر سجانے کا خواب ادھورہ رہ گیا۔ جس کا ہم جیسے کوئٹہ والوں کو ہی نہیں لاکھوں پاکستانیوں کو بھی بہت دکھ ہوا مگر کوئٹہ کے کھیل نے شائقین کے دل موہ لئے اور اسکی ایک رنز سے شکست پر شائقین رو پڑے۔ یہی محبتیں کوئٹہ ٹیم کی جیت بن گئیں۔ پشاور زلمی کے کھلاڑی اور خاص طور پر انکے کپتان ڈیرن سیمی ویسے ہی کرکٹ کے چاہنے والوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں۔ انکی فتح پر خوب جشن منایا گیا۔ یہ صرف کرکٹ میچ جیتنے کی خوشی نہیں پورے پاکستان کی فتح ہے۔ خوف اور دہشت پر فتح پانے کی خوشی ہے جس سے پوری قوم نہال ہے اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے، اسکا اعتراف غیرملکی کھلاڑی بھی دل کھول کر کر رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
ملتان میں ملزم نے بری نہ کرنے پر مجسٹریٹ کی طرف جوتا اچھال دیا۔
جامعہ نعیمیہ کے بعد تو یہی لگ رہا ہے کہ اب جوتے پھینکنے کی رفتار میں تیزی آ رہی ہے کیونکہ کسی کو گولی مارنے، پتھر مارنے، ٹکر مارنے کی نسبت یہ کام آرام سے دور بیٹھ کر بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہی ہے کہ جوتے پھینکنے کے بعد ردعمل میں جو کچھ سہنا پڑتا ہے اس کا حوصلہ بھی موجود ہو۔ بھٹو مرحوم کے دور تک صرف جوتے دکھانے کا رواج تھا جس پر اس ذہین و فطین وزیراعظم نے کیا خوبصورت جملہ کہا تھا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ جوتے مہنگے ہو گئے ہیں‘‘ شاید یہ بات سچ ہی تھی کیونکہ اس دور میں کوئی بھی اپنا ایک جوتا پھینک کر دوسرے جوتے کو ناکارہ کرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا کہ بعد میں نیا جوتا کہاں سے خریدے مگر اب پاکستان میں حالات بدل گئے ہیں۔ چینی سستی اشیاء کی بدولت سستے جوتے اور پلاسٹک کے جوتے دھڑا دھڑ بک رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ جوتا باری کی عادت قوم میں پختہ ہوتی جا رہی ہے۔ اب اس بدبخت چوری کے ملزم کو ہی دیکھ لیں عدالت میں مرضی کیمطابق فیصلہ نہ ملنے پر بری نہ ہونے پر کس قدر ڈھٹائی سے مجسٹریٹ صاحب کی طرف جوتا پھینک دیا اور انہیں دھمکیاں بھی دیں۔ اب چوری کے ساتھ ساتھ اسے جوتا پھینکنے پر توہین عدالت کا مزہ بھی چکھنا ہو گا۔ موصوف چونکہ پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہے اس لئے مزہ چکھانے کا عمل شروع بھی ہو چکا ہو گا۔ اب کہیں مساجد اور جلسوں کے بعد عدالتوں میں بھی جوتے پہن کر جانے پر پابندی نہ لگانی پڑ جائے تاکہ یہ سلسلہ ٔبد مزید دراز نہ ہو۔
٭…٭…٭…٭
مجلس عمل جے یو آئی اور جماعت اسلامی کی حکومتوں سے علیحدگی کے بغیر ہی بحال ہو گئی۔
خدا کرے اس بار ’’یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کیلئے‘‘ اور یہ مذہبی جماعتیں اپنے چاہنے والوں کی امیدوں پر پوری اتریں۔ یہ عجب اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہے جس کی سربراہی کرنیوالی جماعتیں مرکز اور ایک صوبے میں حکومت کے مزے بھی لوٹ رہی ہیں۔ شاید اسے ہی کہتے ہیں ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘۔ سو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سچ کہیں تو مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق صاحب کو اس مجلس عمل کے تن مردہ کو دوبارہ باعمل بنانے پر مبارکباد ہی دی جا سکتی ہے کیونکہ باقی جماعتیں اسمبلیوں میں ہی نمائندگی سے محروم ہیں ان سے تعزیت کرنا یا مبارک دینا ایک جیسا ہے۔ اصل تو جے آئی اور جے یو آئی (ف) کا کمال ہے کہ اپنے مرکز اور صوبے کی اتحادی جماعت کے مقابلے میں اب الیکشن لڑیں گی۔جو لوگ 5 سال ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے اب ایک دوسرے کے پوتڑے سرعام دھوئیں گے۔ دونوں جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ کہاں کہاں مذہبی قوتوں کو متحرک کر کے بازی پلٹی جاتی ہے۔ لوگوں کو اسلام کے نام پر کس طرح جذباتی کیا جا سکتا ہے مگر یہ بات پھر بھی طے ہے کہ اس بار بھی ان دونوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی 2013ء کے الیکشن کے نتائج سے شاید ہی مختلف ہو کیونکہ اس بار تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ نامی مذہبی گروپ بھی مذہبی نعروں پر الیکشن کے میدان میں کود رہے ہیں۔ ضمنی الیکشنوں میں انکے ووٹ بہرحال مجلس عمل کی قائد جماعتوں سے زیادہ ہی تھے۔
٭…٭…٭…٭
احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میاں نواز شریف کی شگفتہ بیانی زوروں پر رہی۔
میاں صاحب نے بھی عجیب طبیعت پائی ہے… پل میں شعلہ بن جاتے ہیں تو پل میں شبنم… طیش میں آئیں تو مجھے کیوں نکالا کی طرحی غزل فی البدیہہ سنانے لگتے ہیں، ہنسنے ہنسانے پر آئیں تو تحریک انصاف کو عامر لیاقت جیسے لوگوں کی پناہ گاہ قرار دیتے ہیں اور اپنے مقدمات کو ناراض بیوی کی طرف سے اپنے ہی بیڈروم کو آگ لگانے والا فلمی سین قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہنسنا ہنسانا، چٹکلہ سننا اور سنانا میاں نواز شریف کی طبیعت میں شامل ہے۔ خود وہ بے شک ہمہ وقت اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کئے رہتے ہیں مگر ہنسنے ہنسانے والوں کو بھی ہمیشہ اپنے پہلو میں جگہ دیتے ہیں جن کی وجہ سے میاں صاحب کی رگ ظرافت بھی پھڑکتی رہتی ہے اور وہ کمال کی جملہ بازی بھی کرتے رہتے ہیں۔ اب جو لوگ سمجھتے تھے کہ حالات کی جھلسا دینے والی ہوا میاں صاحب کو مرجھا دیگی تو فی الحال انہیں ابھی کافی عرصہ انتظار کرنا ہو گا کیونکہ آہستہ آہستہ میاں صاحب کی طبیعت پھر بحال ہو رہی ہے اور اس میں روانی بھی آ رہی ہے مگر اب بھی چودھری نثار جیسے ہمدم دیرینہ سے دوری کی کیفیت سے فی الحال وہ قربت کی طرف آمادہ نہیں ہو پا رہے۔ اگر میاں صاحب انہیں بھی کھانے میں نمک کی طرح لازمی جزو سمجھ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ نمکدان بھی دسترخوان کا لازمی حصہ ہے اسکے بغیر صرف میٹھا ہی آخر تک کھایا جا سکتا ہے۔ پرانے دوستوں سے مراسم تو اکثر یاد رکھے جاتے ہیں دیکھتے ہیں اب میاں نواز شریف کب دل بڑا کر کے اپنے دیرینہ ساتھی کو گلے لگاتے ہیں۔ ویسے بھی آجکل انہوں نے پرانے ناراض ساتھیوں کو منانے کا سوچ ہی لیا ہے تو پھر آغاز چودھری نثار سے ہی ہو جائے۔چودھری نثار بھی اپنا دل بڑا کرتے ہوئے گلے شکوے دور کریں۔