چودھری نثار کے ’’بیانیے‘‘ کو بھی غور سے سنیں!!!

یہ ماننا پڑے گا کہ سیاست میں غیرمتعلق ہو جانے کے باوجود سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما چودھری نثار علی خان کی پارٹی اور پارٹی سے باہر آج بھی لوگ اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی ماضی میں کی جاتی رہی، اُن کو اس حوالے سے بھی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے ہر حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ن لیگ کا ساتھ نہیں چھوڑا، وہ صحیح اور غلط بات کہنے میں پارٹی کے اندر اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ غلط بات برداشت نہیں کرتے، انہیں جو تکلیف ہو وہ بھری محفل میں بھی منافقت کیے بغیر کھلم کھلا اس کا اظہار کردیتے ہیں جس سے بڑے بڑوں کو خاصی تکلیف بھی پہنچتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں چند احباب جو ان کے نزدیک پارٹی کو ’’غلط مشورے‘‘دیتے ہیں ان کے زیر عتاب رہتے ہیں۔ وہ دبے اور کھلے الفاظ میں انہیں کھری کھری سنا بھی دیتے ہیں جس سے عام آدمی کو یہ اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں چودھری نثار ن لیگ کو خیر آباد کہنے والے تو نہیں… اب حال ہی میں انہوں نے ایک انٹرویو میں دل کی خاصی بھڑاس نکالی ہے جس میں انہوں نے نواز شریف کے بیانیے اور ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا ہے کہ(ن) لیگ میں اختلاف رائے کی آزادی ختم ہو چکی ہے، عزت ملنے تک حالات ٹھیک رہے، نواز شریف سے کہا تھا کہ جس کے ساتھ 30 سال کا تعلق ہو بگاڑنے میں بھی 30 سال لگتے ہیں، نواز شریف کو عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں تو قانونی راستہ اپنائیں، ان کے کان بھر دیئے گئے ہیں کہ آپ جیل جائیں گے تو ہمدردی کا تاثر ملے گا لیکن میرا خیال ہے نواز شریف جیل گئے تو پارٹی کو نقصان ہو گا۔ ان کی عمران خان سے سکول دور سے دوستی ہے، وہ جب کرکٹ کھیلتے تھے تب کئی بار ملاقاتیں ہوتی تھیں، پارٹی میں چند لوگوں کو میرے خلاف کچھ نہیں ملتا تو جا کر کان بھرتے ہیں کہ اس کی عمران خان سے دوستی ہے۔ میرا ساڑھے 3 سال سے عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں ہے،مریم نواز اور حمزہ شہباز ہمارے بچوں کی طرح ہیں، کل جب یہ لیڈر ہوں گے تو خاموشی سے سائیڈ پر ہو جائیں گے۔ ’’اس وقت شہباز شریف پارٹی لیڈر ہیں اور میں ان کو لیڈر مانتا ہوں،شہباز شریف کو کام کرنے دیا گیا، پیچھے سے احکامات نہ آئے تو اچھا ہو گا، اگر پیچھے سے احکامات آتے رہے تو وہ کام نہیں کر سکیں گے، رضا ربانی پاکستان میں سب سے بہتر چیئرمین سینٹ رہے۔‘‘ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ میرا پہلے دن سے موقف ہے کہ سپریم کورٹ سے تصادم کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے، عدالتِ عظمیٰ کا غلط فیصلہ ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں، ہم خود کیس کو سپریم کورٹ لائے۔ واحد شخص ہوں جس نے اختلاف کیا کہ کیس کو سپریم کورٹ نہیں لے کر جانا چاہیے۔ نواز شریف نے چند لوگوں کے جھرمٹ میں فیصلہ کیا کہ کیس سپریم کورٹ میں لے کر جانا چاہیے۔
اگر چودھری نثار کے حالیہ ’’بیانیے‘‘ کو غور سے نہیں سنیں گے توآپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آج ملک کے حالات کیوں خراب ہیں؟ جب ہم اپنے ہی دور حکومت میں اپنے ہی اداروں کے خلاف محاذ کھڑا کریں گے تو ملک کے حالات کہاں جا کر رکیں گے؟ آج ملک کے حالات جو بنائے جا رہے ہیں اس حوالے سے ملک کو کوئی بیل آئوٹ نہیں کرے گا۔آج ڈالر کا ریٹ دیکھ لیں راقم نے 6ماہ پہلے ہی اس بات کی طرف نشاندہی کر دی تھی کہ مارچ میں ہمارے پاس رقوم کی ادائیگی کے لیے بھی پیسے نہیں بچیں گے۔ پھر حکومت کو مجبوراََ ڈالر کو 120روپے تک لے جانا پڑے گا۔ میں معیشت دان تو نہیں مگر حالات پر نظر ضرور رکھتا ہوں ، کیسی بات ہے کہ ابھی تک حکومتی وزراء پچھلی حکومتوں کے رونے رو رہے ہیں، حالانکہ ان لوگوں نے 5سال مزے سے پورے کیے ہیں۔ مگر ایک شخص مسلسل یہی کہہ رہا ہے کہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہاوغیرہ وغیرہ … اب یہی ہوگا کہ معاشی حالات مزید بگڑیں گے اور ن لیگ اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔
آج ہمارے سیاسی اداروں کی ترجیحات یہ ہیں کہ پانامہ سے کس طرح جان چھڑائی جائے۔ عمران خان کوکیسے شکست دی جائے، مریم نواز کو کیسے حکومتی اختیارات دیے جائیں۔ لیکن میرے ’’فاضل سیاستدانوں‘‘ کو اس سے کیا لگے؟ عوام اور ملکی معیشت جائے بھاڑ میں ، ملک دیوالیہ ہو رہا ہے ، کوئی بات نہیں … عوام کا کیا ہے؟ وہ تو جب تک سانسیں ہیں تب تک زندہ ہیں۔ بقول عدیم ہاشمی…؎
میں اس کے واسطے سورج تلاش کرتا ہوں
جو سو گیا مری آنکھوں کو رت جگا دے کر
مارچ ختم ہونے والا ہے، کیا آج ڈالر کا ریٹ ایک ایک دن میں چارروپے نہیں بڑھ رہا؟جب یہ حکومت آئی تھی اس وقت ملک پر 60ارب ڈالر کا قرض تھا آج آئی ایم ایف 103ارب ڈالر قرض کے بوجھ کی نوید سنا رہی ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس ساڑھے 12 ارب ڈالر موجود ہیں ، پاکستان سود کی مد میں سالانہ 3 ارب ڈالرز ادا کررہا ہے جس سے معیشت کو مزید نقصان ہوگا… آج پاکستانی معیشت سخت ترین دبائو کا شکار ہے، کرنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے، امپورٹ بل میں اضافے سے آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان مزید ادائیگیاں کرنے سے بھی قاصر ہوگا۔ اب بجٹ بھی ایک ماہ بعد آنے والا ہے۔ فرض کیا سو روپے کا بجٹ پیش کیا جائے گا، اس سو روپے کے قومی بجٹ میں سے پچاس روپے تو گزشتہ اور حالیہ حکمرانوں کے لیے گئے اندھا دھند ملکی وغیر ملکی قرضوں کے بیاج اور کنسلٹنسی کی نذر ہوجاتے ہیں۔پچیس روپے دیگر اخراجات میں گئے۔بقیہ پچیس روپے میں سے بیس روپے سرکاری ڈھانچے کی تنخواہوں اور مراعات کے بلیک ہول میں گر جاتے ہیں۔باقی رہ گئے سو میں سے پانچ روپے۔اس پانچ روپے میں 22کروڑ لوگوں کو کیا ملتا ہے ؟
آپ کسانوں کو دیکھ لیں ، اپنی قیمت لاگت سے بھی کم نرخ پر پیداوار کی سپلائی دینے پر مجبور ہیں، ہمارے حصے کا پانی ہمارے کسانوں کونہیں مل رہا، پانی نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں سوکھ رہی ہیں، گندم کی فصل پانی نہ ملنے کی وجہ سے فی ایکڑ کاشت میں کمی واقع ہوئی ہے، کیا حکومت نے گزشتہ 5سالوں میں اس پر کام کیا؟ مال روڈ پر کسانوں کو مار پیٹ کر اور جھوٹے وعدے کرکے گھر بھیجا گیا۔یہی وجہ سے کہ آج پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں۔ وقت آنے پر یہ ثابت بھی ہو جائے گا کہ مقدمات سچے تھے یا جھوٹے، اس لیے مسلم لیگی کارکنوں ، اکابرین اور سینئر سیاستدانوں کو ملک کے لیے سوچنا چاہیے، شخصیات کے ارد گرد چکر نہیں کاٹنے چاہئیں‘ ن لیگ ایک جمہوری پارٹی ہے یہ کسی ایک شخص کی پارٹی نہیں بننی چاہیے،اگر پارٹی کو بچانا ہے تو چودھری نثار جیسے کھرے لوگوں کو پارٹی میں آگے آنا چاہیے اور نواز شریف کو اپنے قرب و جوار میں سازشی عناصر کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ کیوں کہ میاں نواز شریف سے قوم سوال پوچھتی ہے کہ آج ملک کے حالات کیوں خراب ہیں؟ معاشی طور پر ہم بدحالی کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ جبکہ وہ جواب دے رہے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔
آج چودھری نثار علی خان کے بیان کو اس لیے اہمیت دی جارہی ہے کیوں کہ انہوں نے 30سال میاں نواز شریف کے ساتھ گزارے ہیں وہ اس جماعت کا تمام کچا چٹھا جانتے ہیں، انہیں علم ہے کہ کون کتنا کرپٹ ہے، کتنا ایماندار ہے اس لیے وہ بجا فرما رہے ہیں کہ مسلم لیگ کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے، انہیں اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کرنے کے بجائے انہیں سامنے لانا چاہیے اور جو غلطی کے مرتکب افراد ہیں ان کا پارٹی کے اندر ہی احتساب ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر ن لیگ میں فرد واحد کے فیصلے چلتے رہے تو یہ پارٹی بھی ایم کیو ایم کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی جس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے آجائیں گے اور پارٹی کو مزید خراب کریں گے۔