کوئی بھی معاشرہ اپنی اخلاقی، ثقافتی اور معاشرتی اقدار سے پہچانا جاتا ہے، یہی اقدار آپکو دوسروں سے مختلف بناتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ ہمیشہ سے اپنی ثقافتی، مذہبی، خاندانی اقدار کیوجہ سے نمایاں رہا ہے۔ ہمارے خاندانی نظام کی مضبوطی کا دنیا جہان میں ذکر کیا جاتا ہے۔ یہی نظام نہ صرف ہمیں نمایاں بناتا ہے بلکہ بہت سی مشکلات اور خرابیوں کے باوجود بھی آج اگر ہم کسی حد تک منفرد اور یکجا ہیں تو وہ بنیادی طور پر اپنی انہی خاندانی روایات اور اقدار کیوجہ سے ہیں۔ آج بھی دنیا کی قدیم اقوام سختی سے اپنی تاریخ اقدار پر قائم ہیں اور ان پر فخر بھی کرتی ہیں جسکی سب سے بڑی مثال برطانوی معاشرہ ہے، بحیثیت قوم برطانیہ کے لوگ اپنے ماضی اور معاشرتی اقدار پر ہمیشہ فخر کرتے ہیں اور کافی حد تک ان پر کار بند بھی ہیں۔ مختلف عوامل کیوجہ سے معاشرے انحطاط اور زوال کا شکار ہیں جسکی وجہ سے بہت سی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ مادہ پرستی، پسماندگی، مذہبی تقسیم اور علاقائیت چند ایسی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے معاشرے اپنی اقدار کھو رہے ہیں۔ اس میں ایک بڑا عمل دخل انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیزی سے ترقی بھی ہے۔ ترقی یافتہ اور باشعور اقوام تو اس ترقی سے مثبت فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ پسماندگی اور ترقی پذیر معاشرے ایک گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان معاشروں کے لوگ اندھی تقلید میں اپنی اقدار اور تشخص کو بھی بھولتے جارہے ہیں جس سے بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ چونکہ اپنی قدیم اور روایتی اقدار کمزور سے کمزور ہوتی چلی جارہی ہیں اس لئے چیک اینڈ بیلنس کا خودکار نظام بھی اتنا کارگر نہیں رہا۔ ہمارا معاشرہ بھی کچھ اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہے۔ بڑھتی ہوئی مذہبی، ثقافتی، علاقائی، طبقاتی اور سیاسی تقسیم نے معاشرے کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر کوئی انا پرستی، ذاتی مفادات، مادہ پروری اور نفسا نفسی کے عالم میں مبتلانظر آتا ہے، چاہے معاشرے اور ملک کا جتنا مرضی نقصان ہو جائے۔ اس سلسلے میں کہیں مذہب اور فرقے کا سہارا لیا جاتا ہے تو کہیں سیاسی اور علاقائی مفاد ات حاوی ہوتے نظر آتے ہیں۔ اپنے نظریئے اور فلسفے کی ترویج کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بات اختلافات سے بڑھکر نفرت، انتہا پسندی اور خطر ناک اشتعال انگیزی کی طرف چلی گئی ہے۔ دلیل سے بات کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ پسند ناپسند کی بنا پر تقسیم اس قدر خطرناک ہو چکی ہے کہ کوئی دوسرے کی بات سننے کو ہی تیار نہیں۔ مکالمہ تو تقریباً ناپید ہو چکا ہے نتیجتاً دلیل کی جگہ گالی گلوچ، الزام تراشی، کردار کشی اور بیان تراشی نے لے لی ہے۔ ذاتیات کو نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے جسکی وجہ سے معاشرہ میں تشدد کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، اس ساری صورتحال کے ذمہ دار سیاسی، مذہبی رہنما اور غیر ذمہ دار صحافت ہے۔ اپنی بات کو منوانے کیلئے ہر قسم کے منفی حربے استعمال کئے جارہے ہیں جس سے وقتی طور پر اپنے حمایتیوں کا خون تو گر ما یا جا سکتا ہے اور شہ سرخیاں بھی بن جاتی ہیں مگر اثرات انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اگر صرف گزشتہ ہفتے کے واقعات کا ہی جائزہ لیا جائے تو وہ انتہائی قابل افسوس واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ نہ صرف انتہائی قابل مذمت ہیں بلکہ اس سے بحیثت قوم پوری دنیا میں ہماری سبکی ہوئی ہے۔ سیالکوٹ میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی جبکہ لاہور میں ایک دینی ادارے کی تقریب میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف پر جوتا اچھالا گیا بظاہر تو تقریباً ہر سیاسی و مذہبی رہنما نے ان دونوں واقعات کی مذمت کی ہے مگر یہ کافی نہیں کیونکہ اگر ہم ان واقعات کا تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ یہ واقعات اچانک نہیں ہوگئے بلکہ ان کے پیچھے گزشتہ کئی سالوں سے چلائی جانے والی وہ مہم ہے جس کے ذریعے معاشرے میں نفرت، شدت پسندی اور کردار کشی کی ایسی فضا پیدا کی گئی جس کی بنیاد پر لوگوں کے جذبات اس حد تک پہنچ گئے، اس سلسلے میں میڈیا کے چند گروپس اور چند سیاسی و مذہبی رہنماؤں کا کردار کلیدی رہا ہے، اگر آپ اتنے عرصے سے ایک تسلسل کے ساتھ ایک سیاسی رہنما اور اسکی جماعت کے خلاف اس طرح منظم مہم چلائیں گے تو پھر لوگوں کے جذبات حدود سے تجاوز تو کریں گے۔ دونوں میاں نواز شریف اور خواجہ آصف نہ صرف عمر کے لحاظ سے بہت سینئر ہیں بلکہ بہت عرصے سے عوامی حمایت کے ذریعے ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے مخالفین وقتی طور پر خوش ہو سکتے ہیں کہ انکے سیاسی مخالفین کی تذلیل ہوئی ہے مگر یہ رجحان نہ صرف ایک شدت پسند سوچ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس سے ایک خطرناک روایت نے بھی جنم لیا ہے جو کل کو دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کیونکہ بہرحال نواز شریف صاحب ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ ملک میں انکے بھی کروڑوں چاہنے والے ہیں جو کہ طیش میں آ کر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان واقعات سے بظاہر انکو سیاسی فائدہ بھی ہوا ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات سے ایک فطری ردِ عمل بھی ہوتا ہے جس سے ہمدردی بڑھ جاتی ہے۔
ملک میں آئندہ چند ماہ میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور اگر یہی فضا قائم رہی تو انتخابی مہم بہت خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک اور بات جو زیادہ خطر ناک ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کے خلاف حملہ نہ صرف ایک مذہبی اجتماع میں کیا گیا بلکہ اس کی وجہ بھی مذہبی جذبات کو بنایا گیا، یہ ساری صورت حال ہمارے ملک اور معاشرے کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ہمارے لئے پہلے ہی اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بہت سے خطرات منڈلارہے ہیں اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو خدا نخواستہ صورت حال بہت خطرناک حد تک جاسکتی ہے، ان واقعات سے ہمارے ملک اور معاشرے کی جو سبکی ہوتی ہے وہ بحر حال کسی کیلئے بھی کامیابی اور خوشی کی بات نہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024