سب کو پتہ ہے فیصلے کہاں ہوتے ہیں‘ اظہار مشکل ہے: فضل الرحمن
کرا چی( خصوصی رپورٹر) جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارے مالیاتی، سیاسی اور دفاعی ادارے بین الاقوامی دبائو میں ہیں۔ ہمارے اداروں کو دبائو سے نکلنے کے لئے سوچنا ہوگا ۔ کراچی میں صحافیوں اعزا زمیں مقامی ہوٹل میں دیئے گئے ظہرانے سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ پاکستان میں فیصلے کہاں ہوتے ہیں سب جانتے ہیں مگراس کا اظہار سب سے مشکل ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کا تاثر اسلام کے خلاف جنگ کا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اداروں سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ سیاست دانوں کو کرپٹ اور چور ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی رویہ رہا تو آنے والی حکومت بھی مشکل میں ر ہے گی۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے تحفظ، قیام ، امن ، خوشحالی معیشت کے لئے اداروں کو رویہ بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صحافت امانت ہے اور امانت کے لئے دیانت شرط ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ عالمی اداروں میں فیصلے ہوتے ہیں اور قراردادیں آتی ہیں اپنا آئین ان کے فیصلوں سے متصادم ہوجائے تو ہمارا اپنا قانون غیر متاثر ہوجاتاہے ہماری معیشت آزاد نہیں ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ایسا جکڑ دیا گیا ہے کہ ہمارے بجٹ کی حیثیت ایک کنبہ کے بجٹ کی طرح ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بجٹ بنتا ہے داخلی وسائل کو استعمال میں لانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہماری لاچار اور بے بس جمہوریت کی مثال شاید دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست سے کب نکلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ رات کی تنہائی میں باہر سے کوئی دوسرا وزیراعظم آجاتا ہے معین قریشی کون تھا ایک ہی رات میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنایا گیا اور پھر وہ صاحب حکومت کرکے چلے جاتے ہیں اور نقش پا پر چلنے کی بات کرکے چلے جاتے ہیں اس طرح شوکت عزیز آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اسپانسر قوت میں ایجنٹس پاکستان میں سیاست کرنا چاہتے ہیں عوامی نمائندوں کی گرفت ملکی نظام پر کمزور پڑتی جارہی ہے۔ چیلنجز ہمارے لئے ہیں یہ وہ نظریاتی سمت ہے جس پر ہم چلنا چاہتے ہیں۔ اس پر میڈیا کا کلیدی کردار ہونا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمن نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ متحدہ مجلس عمل ہمارا پہلا تجربہ تھا کے پی کے میں ہماری حکومت تھی ہم نے تمام محکموں میں قرآن و سنت کے حوالے سے اصلاحات کیں اور اس پر کامیابیاں حاصل کیں۔ ہم نے اس وقت لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا چاہا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ چار چار ماہ یہاں دھرنے دیئے جاتے ہیں اس قسم کی سیاست اقتدار کی خواہش ہے جمہوریت او ملک کی خواہش نہیں مولانا فضل الرحمن نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ چار چار مہینے یہاں دھرنے دیئے جاتے ہیں۔ اس قسم کی سیاست اقتدار کی خواہش ہے جمہوریت اور ملک کی خواہش نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مشرف کے زمانے میں نیب بنا اور بڑے بڑے ریکور لیتے رہے۔ ذلیل اور رسوا سیاست دانوں کو کیا گیا۔ جمعیت علما اسلام ایسی جماعت ہے جس نے پرانے گھسی پٹی روایات کو توڑا ہم نے ہر حکومت کے ساتھ عہد و پیمان کیا روایات کو تو ڑ کر بریکیں لگائی ہیں ہم نے رکاوٹیں ڈالی ہیں وفاق، سندھ ، کے پی کے میں روکا ہے۔ اس کے لئے اپوزیشن میں رہنا ضروری ہے ہم حکومت میں بھی نظریات کے لئے کوشاں ہیں او رہمیشہ نظریات کے لئے ڈٹے رہے۔ سیاست میں چاچے، ماموں کو ترجیح دینے کے مسئلے پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب ہم نے متحدہ مجلس عمل بنالی ہے۔ سیٹوں کی تقسیم کا ایک فارمولا ہمارے سامنے ہے اسمبلیوں میں اکثریت اقلیت میرا پیمانہ نہیں ہے۔ مجھے ایک پارٹی بتادیں جو ایک ہی میدان میں پچاس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرسکے۔ مولانا فضل الرحمن کی صحافیوں سے گفتگو کے موقع پر جے یو آئی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالغفور حیدری، اکرم خان درانی، وفاقی وزیر ہائوسنگ اسلم غوری، بادینی صاحب، قاری عثمان اور دیگر موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ آج جمعرات 22 مارچ کو مزار قائد پر اسلام زندہ باد کانفرنس ہوگی۔