تصوف اور روحانیت ....اسوئہ رسول ﷺ کی روشنی میں !
چوہدری محمد اسلم سلیمی
اسلام میں روحانیت کا صحیح مفہوم ”قرب الٰہی “ہے ، جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت ہوتا ہے ۔اسلام میں قرب الٰہی کے حصول کا دار و مدار قرآن و سنت پر عمل کرنے میں ہے۔
انسانیت کے پاس دینی و سماوی علم کا سرچشمہ اب صرف قرآن کریم ہے اور سنت رسول اس علم کی تشریح و تجسیم ہے۔نبی کریم نے فرمایا ہے کہ ”ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہماکتاب اللہ و سنةنبیہ“ ایک اور حدیث قدسی کے مطابق دین کے تین درجے ہیں ، (1)اسلام ،(2)ایمان اور(3) احسان ۔اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے اس بات کا اقرار کرے کہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ایما ن یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کامقصد و مفہوم انسان کے قلب میں راسخ ہوجائے اور عمل میں ڈھل جائے بلکہ اس کی زندگی کا شعار بن جائے ۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
چوں می گوئم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ الا اللہ !
علامہ اقبال ؒ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہونے کا اقرار کرکے میں احساس ذمہ داری سے کانپ اٹھتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ لا الہ الااللہ کا اقرار کرکے کیا کچھ عمل کرنا پڑتا ہے اور کیا چھوڑنا پڑتا ہے۔
احسان یہ ہے کہ اسلام اور ایمان انسان کے عمل میں حسن کے ساتھ ظاہر ہو ں اور جھلکتے ہوئے نظر آئےں،اس کا مطلب یہ ہے کہ روحانیت کا تعلق مرتبہ احسان میں مسلسل ترقی کرتے رہنے سے ہے ،ایک انسان کی زندگی جیسے جیسے مرتبہ احسان میں آگے بڑھتی جاتی ہے ،اس کی روحانیت میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا جاتا ہے ، حضور نبی اکرم روحانیت کے اصل ماڈل اور ماہتاب کامل ہیں،خود اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں کیلئے نبی اکرم کی ذات اقدس کو بہترین نمونہ قرار دے دیا اور اسی نمونہ کو اپنانے اور اس کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ
صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین جنہوں نے رسول اللہ کے اس بہترین نمونے کو اپنایا اور اسی راہ راست پر چلتے ہوئے اپنی جانیں تک قربان کردینے کیلئے تیار ہوجاتے تھے، جن کی زندگیوں کو رسول کریم نے روشن ستاروں (اصحابی کاالنجوم) کی مانند قرار دیا اور فرمایا کہ جو میرے صحابہ ؓ کی زندگیوں کو اپنائے گا وہ راہ راست پر ہوگا،صحابہ کرام بلاشبہ تصوف اور روحانیت کی معراج پر تھے۔تما م صحابہ ؓ ستاروں کی مانندہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کی جائے ہدائت پا لی جائے گی ۔
دوسری اور تیسری صدی ہجری کے تابعین اور تبع تابعین جن میں امام حسن بصری ؒ ،ابراہیم ادھمؒ،فضیل بن عیاضؒ،معروف کرخیؒ،سفیان ثوریؒ ،جنید بغدادیؒ،ابو طالب مکی ؒ اورچھٹی صدی ہجری کے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ جیسے بزرگ جن کو تمام صوفیاءاپنے مقتداءاور پیشوا مانتے ہیں،اسلام کے شیوخ ہیں ،یہ سب حضرات اہل علم تھے ،کتاب و سنت کے پابند تھے،نہایت صالح ،صلح کل ،حقوق اللہ اور حقوق العباد پر زور دینے والے اور اکل حلال (حلال روزی کما کرکھانے ) کی تلقین کرتے تھے ۔باطن کی صفائی پر زور دیتے تھے اور تکبر اور غرور والوں سے ہمیشہ دور رہنے والے تھے۔یہ حضرات علمی لحاظ سے بھی ممتاز تھے اور اپنے علم کے مطابق عمل کے لحاظ سے بھی ۔ان حضرات نے تقرب الہٰی کے مسنون طریقوں کا اہتمام کیا اور عبادت الٰہی اور حسن عمل کے بہترین نمونے پیش کئے ۔انہوں نے تقرب الٰہی کے وہی طریقے اپنائے جن کا ذکر قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے۔یہ حضرات اپنی انفرادی کوششوں سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو منور رکھتے اور فکر آخرت کے دیپ جلاتے رہے ،یہ سب شیوخ زہد وتقویٰ میں یگانہ روزگار اور دین کی گہری بصیرت رکھنے والے تھے ۔
چوتھی صدی ہجری میں فقہائے اسلام اورمحدثین کرام نے بعض صوفیاءکی کچھ حرکتوں کو خلاف قرآن و سنت پاکر ان سے سخت اختلاف کیا ،بعض صوفیاءنے کئی خلاف شریعت باتیں کیں،مثلاً حسین ابن منصور حلاج نے انا الحق ( میں ہی حق ہوں) کا نعرہ مستانہ بلندکردیا،کسی کو خط لکھا تو اس طرح شروع کیا کہ”یہ خط ہے رحمان اور رحیم کی طرف سے“کسی نے کہا کہ تم نے ربوبیت کا دعویٰ کردیا ہے تو حلاج نے جواب دیا کہ میں نے دعویٰ نہیں کیا ،البتہ یہ وہ چیز ہے جو ہم صوفیوں کے نزدیک ”عین الجمع“ سے تعبیر کی جاتی ہے۔
افسوس ہے کہ بعد کے زمانوں میں علم اور اخلاق کے زوال سے جہاں اور بہت سی خرابیاںپیدا ہوئیں ،تصوف کے پاک چشمے کو بھی گندا کردیا گیا ۔لوگوں نے گمراہ قوموں سے طرح طرح کے فلسفے سیکھے،یونانی فلسفے کی کئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا ،تصوف کے نام سے ان فلسفیانہ مباحث کو بھی شامل کردیا گیا۔ ایران کی زردشتی تہذیب کے کچھ مظاہر کا اثر قبول کرلیا گیا،ہندوانہ تہذیب کا بھی اثرہوا،عجیب عجیب قسم کے عقیدوں اور طریقوں پر تصوف کا نام چسپاں کردیا گیا ،جن کی کوئی اصل قرآن و حدیث میں نہیں ہے ،پھر اس قسم کے لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو شریعت کی پابندیوں سے بھی آزادکرلیا ،طریقت کے نام پر اختیار کرلیااور یہ گمراہ کن دعویٰ بھی کردیا کہ تصوف کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ہے ،اس قسم کی لغویات اکثر جاہل صوفیوں سے سننے میں آتی ہیں۔
اسلام میں ایسے کسی تصوف کی گنجائش نہیں جو شریعت کے احکام سے بے تعلق ہو،کسی صوفی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نماز ،روزے ،حج اور زکوٰة کی پابندی سے خود کو آزاد قرار دے یا دوسروں کو آزادی کے سرٹیفیکیٹ بانٹتا پھرے ۔کوئی صوفی ان قوانین کے خلاف عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا جو معاشرت اور معیشت ،اخلاق اور معاملات ،حقوق و فرائض اور حلال و حرام کی حدود کے متعلق اللہ اور اس کے رسول نے بتائے ہیں اور جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے ۔
تصوف تو دراصل خدا اور رسول کی سچی محبت بلکہ عشق کا نام ہے ۔عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی سے بال برابر بھی انحراف نہ کیا جائے ،پس اسلامی تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے ،بلکہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لانے اور اطاعت میں اللہ کی محبت اور اس کے خوف کی روح بھر دینے ہی کا نام تصوف ہے ۔
صوفیا ءنے سلوک کی منازل طے کرانے کیلئے تین درجے مقرر کئے ۔
(1) فنا فی الشیخ
(2)فنا فی الرسول
(3)فنا فی اللہ
فنا فی الشیخ ہونے کے نام پر بہت سی بدعات کو رواج دیا گیا ،میرے خیال میں حدیث قدسی میں دین کے جو تین درجے اسلام ایمان اور احسان بیان کئے گئے ہیں انہی کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اسلام اور ایمان کے بعداحسان کے درجے میں تکمیل کی کوشش کرتے رہنا چاہئے ۔
علامہ اقبال ؒ فقر کی تعریف اس طرح کرتے ہیں ۔
فقر جوع و رقص و عریانی کجا است
فقر سلطانی است رھبانیت کجا است
یعنی فقر بھوکا رہنا ،ناچنایا ننگے ہوجانا نہیں ہے ،فقر تو حکمرانی ہے ،رہبانیت یعنی ترک دنیا نہیں ہے۔
فقر کے بارے میں حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒکہتے ہیں،فقر کی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں ہے بلکہ دل کو دنیاکی محبت سے خالی اور رغبت سے بے نیاز کرنا ہے ۔اس کے پاس سرے سے خواہ کچھ بھی موجود نہ ہویا اس کے پاس دنیا کے سارے اسباب ہی موجود کیوںنہ ہوں دونوں میں سے کسی حالت میں اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے۔
پس ذات خداوندی کے ماسوا دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے ،فقر کی اصل عزت یہ ہے کہ اس کے تمام اعضاءو جوارح خدا کی نافرمانی سے محفوظ ہوں۔“
ایک حقیقی صو فی کی مثال جنگلی بطخ کی سی ہے جو پانی میں رہتی ہے مگر اس کے پر گیلے نہیں ہوتے ۔یعنی حقیقی صوفی ترک دنیا کے بجائے دنیا کے اندر رہتے ہوئے اس کی آلائشوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے ۔
بعض لوگ آنحضور کے نبوت سے قبل غار حرا میں جانے کے واقعہ کو بنیاد بنا کر تقرب الہٰی کیلئے رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے اور تارک الدنیا ہونے کی دلیل دیکر شریعت کی پابندیوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک آپ کو نبوت عطا نہیں کی گئی آپ اپنی فطرت سلیم کی بدولت اس وقت کے عرب معاشرے میں پائی جانے والی بدترین خرابیوں ،عبادت کے نام پر ننگے ہوکر طواف کرنے ، جھوٹ مکر و فریب، شراب نوشی اور گناہ پر اترانے والے معاشرے سے نکل کر غارحرا میں تشریف لے جاتے تھے اور کئی کئی گھنٹوں بلکہ دن تک دنیا کے خالق ومالک اور ذات باری تعالیٰ کی ہستی پر غور و خوض اور فکر وسوچ و بچار کرتے اور اللہ سے ہدائت طلب کرتے رہتے تھے،لیکن جب انہیں نبوت عطا فرمادی گئی اور غار حراءمیں حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے
اور آپ سے کہا کہ” اقرائ“ یعنی پڑھیئے !اور آپ نے فرمایا کہ”ما انا قاریئ“جبرائیل نے اللہ تعالی ٰ کی طرف سے آپ کو سورہ اقراءکی پہلی پانچ آیات کی وحی پہنچا دی تو اس کے بعد آپ کو کتاب ہدایت دیدی گئی اور اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ لوگوں کوکفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت اور آخرت کے عقیدے کی دعوت دو، اس کے مطابق فیصلے کرو اور لوگوں کی زندگیوں کو اس نور سے منور کرو، مولانا الطاف حسین حالی کے الفاظ میں ۔
نکل کر حراءسے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہءکیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کردکھایا
اب قرآن کریم اور آپ کا اسوئہ مبارک ہی قرب الہٰی کے حصول کا اصل سرچشمہ ہے ،اس سے دور جاکر کوئی شخص اللہ کے مقرب بندوں
میں شامل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی تصوف اور روحانیت کے مدارج اسلام اور ایمان کے مطابق عمل صالح اور احسان کے درجے کی تکمیل ہیں۔