انسان و خلائی مخلوقات2
محمد صدیق اکبر
پلازمک ملائکہ:
ان آسمانی ملائکہ کے بعد دوسرے درجہ پر خالص آگ یا توانائی سے تخلیق شدہ مخلوق جنات کے لئے بھی ملائکہ کا لفظ استعمال ہوا ہے: جیسے:
”اور ہم نے جب فرشتوں کو کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا (اور) وہ جنات میں سے تھا“۔ (الکھف: (50
ٹھوس، مائع اور گیس کے بعد کائناتی مادے کی چوتھی حالت یا نیم مادے و توانائی کو پلازمہ کہتے ہیں۔ اس میں کسی گیس، دھوئیں اور دیگر مواد کا وجود نہیں ہوتا۔ اس لئے اسے ”خالص آگ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی کی نسبت سے بطور سہولت ہم اسے ”کائناتی انرجی“ کا نام دے لیتے ہیں۔
کائناتی توانائی کی اس پلازک مخلوق نے عبادت و ریاضت سے دربار الٰہی میں خاصی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ لیکن ان میں اپنے ذاتی ارادہ و خیال کی آزادی اور پسند ناپسند کا عنصر بھی موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر ان میں منفی جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک موقع پر خدائی حکم سے نہ صرف کھلم کھلا بغاوت کر دی بلکہ حکم الٰہی کا تجزیہ بھی شروع کر دیا۔ جیسے:
”کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔ بولا (بھلا ذرا) دیکھ تو اس کو جو تو نے مجھ سے معزز کیا“۔ (بنی اسرائیل: (61-62
ابلیس بولا میرے مقابل انسان کی اوقات ہی کیا ہے کہ میں اسے سجدہ کروں! اس جواب کے بعد یہ معتوب نظر ہو کے اپنے عمدہ مقام سے گر گئے۔ لیکن بلحاظ طاقت و استطاعت یہ آسمان دنیا میں گھوم پھر لیتے ہیں۔ بعض آسمانی خبروں یا پیغامات کی بھنک پا لینے کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ جیسے:
”مگر جو کوئی اچک لایا (آسمانی خبر) جھپٹ کے“۔ (الصفت: (10
اس آتشیں مخلوق کا مادہ و توانائی اور وقت پر جزوی کنٹرول ثابت ہوتا ہے۔ جو آسمانی نور سے تخلیق ملائکہ کے درجے تک نہیں۔ ہم مادی مخلوقات تین سمتی (Three Dimensional) کائنات میں رہتے ہیں۔ جبکہ ”کائناتی انرجی“ کی یہ آتشیں مخلوق کئی سمتی کائنات یا ہائپر اسپیس (Hyper Space) میں رہتے ہیں۔ جیسے:
”وہ (شیطان) اور اس کا گروہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں پر تم انہیں نہیں دیکھ سکتے“۔ (الاعراف: (27
لیکن آسمانی نور کے ملائکہ یعنی فرشتوں کی ہائپر اسپیس تک ان کی رسائی ثابت نہیں ہوتی۔ مثلاً جان کنی کے مناظر، نامہ اعمال اور دیگر بے شمار ایسے مواقع اس مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ جب حضرت سلیمان ؑکی وفات ہوئی تو آسمانی نور کے ملائکہ عزرائیل ؑ اور ان کے گروہ کی آمدورفت کو یہ لوگ نہ دیکھ سکے۔ شاید ہائپر اسپیس کے ایک طبقے یا حصے تک ان کی رسائی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہے کہ ابلیس ہماری آخری سانس تک ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ گویا یہ ہماری جان کنی کے آخری لمحے تک موجود رہ کر ملاحظہ کرتا رہتا ہے لیکن حضرت سلیمان ؑ کی زیرنگرانی کام کرنے والے گروہ شیاطین کے دوسرے ارکان کے سامنے آپ موت کی واقع ہوئی۔ مگر وہ موت کے فرشتوں کی آہٹ تک نہ پا سکے۔ ابلیس اور اس کے ساتھیوں نے بھی اپنی ہی قسم کے ان شیاطین ارکان کو مطلع نہ کیا۔ اس کی کیا توجیح ہو سکتی ہے؟ کیا ان میں دو مختلف انواع ہیں؟ شاید گروہ ابلیس کا رہن سہن اور کارکردگی ہائپر اسپیس کے اس طبقے تک ہے جس کی حدود آسمانی نور کے ملائکہ تک جا ملتی ہے۔ انہیں کسی جگہ یا مقام سے منسلک ہو کر رہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا اپنا غیرجسمانی گروہ یا طبقہ ہے۔ جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زیرنگرانی کام میں مصروف شیاطین کسی دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جو شاید ہائپر اسپیس کی ابتدائی منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ نوع شیاطین یا آتشیں مخلوق کسی نہ کسی جگہ مقام یا سطح زمین سے منسلک ہو کر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں ہم عرف عام میں دیو، عفریت، جنات وغیرہ کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان ؑ کے ماتحت اس مخلوق کے مختلف پیشہ ور احباب، ہواباز، غوطہ خور، معمار، ماہر تعمیرات وغیرہ موجود تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گروہ جسمانی وجود رکھتا ہے۔ اس لئے یہ گروہ شیاطین کسی زمین پر ہماری وضع قطع کی زندگیاں گزارتے ہیں۔