ڈاکٹر شاہد مسعود نے 23 مارچ سے پہلے ہی یوم پاکستان کے حوالے سے ایک چھوٹے سے اجتماع میں پنجاب یونیورسٹی لاہو کے نوجوان طلبہ و طالبات کے سامنے دل دل پاکستان کا نعرہ لگایا تو پورا ماحول دل دل پاکستان کے نعروں سے گونجنے لگا اور ایک سرمستی پورے ماحول میں بکھر گئی۔ ایسی باتیں پاکستان میں اب نہیں ہوتیں۔ صرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ہوتی ہیں۔ دل دل پاکستان تو گیت بھی نوجوانوں کا ہے۔ یہ محبت سفر کر رہی ہے۔ کون کہتا ہے کہ نئی نسل کے لوگ پاکستان اور تحریک پاکستان کے حوالے سے بے خبر ہیں اور بے نیاز ہیں۔ ایک عجب وجدانی کیفیت موجود تھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے ہوتے ہیں۔ اب تو لوئر مڈل اور مڈل کلاس میں فرق نہیں رہا۔ امیر کبیر کلاس کی پاکستان سے وابستگی نہیں۔ اسلئے ان میں وارفتگی بھی نہیں۔ جذبوں رشتوں اور ولولوں کا والہانہ پن ان کے پاس ہے جن کے پاس روایتی معنوں میں کچھ نہیں۔ وہ اپنی روایات‘ اقدار‘ سیاسی اور صحافتی معاملات کی حفاظت اخلاقیات کی طرح کرتے ہیں۔ یہی لوگ مسلمان بھی ہیں اور پاکستانی بھی ہیں۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں دل و دماغ کی سب اہلیتوں اور کیفیتوں کو حاضر رکھتے ہیں۔ انہیں ملا کا اسلام نہیں۔ محمد کا اسلام قبول ہے۔ اسلامیات سے زیادہ سیرت النبی جن کی آئیڈیل ہے مگر غریب لوگوں کو بدنصیب بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ ان کے پاس نہ ارادہ رہنے دیا گیا ہے اور نہ آرزور رہنے دی گئی ہے۔ امیر کبیر لوگ ذاتی مفادات کی دلدل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ وہ اس گندگی سے نہ نکل سکتے ہیں نہ انہیں نکلنے دیا جاتا ہے۔ کوئی سر اٹھاتا ہے تو نیچے سے اس کو اپنے درمیان کھینچ لیا جاتا ہے۔ گندگی کو انہوں نے اجالا سمجھ لیا ہے۔ اس گندگی نے ان کے پاس بندگی بھی نہیں رہنے دی۔ امیری کے مقابلے میں فقیری ہے۔ اسی کی بدولت غریبی میں نام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ فقیری تو امیری سے بڑھ کر ہے۔ امیر بھی فقیری اختیار کر لیں تو بات بن جائے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹر مجاہد کامران نے پاکستانی ماحول بنانے کی کامیاب کوشش کر رکھی ہے۔ لمس (LUMS) یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں واضح فرق ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لڑکوں لڑکیوں سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے کہیں اور تو نہیں جانا چاہتے۔ پاکستان جیسا بھی ہے۔ اپنا گھر تو ہے۔ تمام طلبہ و طالبات نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ہم اپنے گھر میں رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ہمارا گھر ہے۔ ہم اپنے گھر سے کسی دوسرے گھر میں کیوں جائیں خواہ وہ کتنا ہی عالیشان کیوں نہ ہو۔ میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہوں۔ انگلستان سے ایک دوست آئے جو عالم اسلام اور پاکستان کے اندر فلاحی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی تنظیم کا نام مسلم ہینڈ ہے۔ وہ چند کالم نگاروں سے ملنا چاہتے تھے۔ وہ سب امیر کبیر علاقوں میں رہتے ہیں۔ جب میرے پاس آئے تو کہنے لگے۔ آپ اس چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ میں اپنے دل میں رہتا ہوں۔ اگر دل سے بڑا اور شاندار گھر کہیں ہے تو مجھے بتا دیں۔ میں پھر بھی وہاں نہیں جاوں گا۔ ڈاکٹر صاحب جب ایک والہانہ پن کے بانکپن سے دل دل پاکستان کہہ رہے تھے تو مجھے یہ بات یاد آئی۔ پاکستان ہمارا دل ہے۔ ہم دل و جان سے اس پر نثار ہیں۔ یہ پاکستان میں رہنے والے ہر آدمی کا خیال ہے۔ وہ جو پاکستان میں اس طرح رہتے ہیں جیسے اور کہیں رہتے ہوں۔ وہ یہاں حکومت کرنے‘ سیاست کرنے آتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے آتے ہیں۔ انہی لوگوں نے پاکستان پہ قبضہ کر رکھا ہے اور سچے پاکستانیوں کی زندگی کو شرمندگی بنا دیا ہے وہ اپنی زندگی اور درندگی میں کوئی فرق نہیں کرتے۔!
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ لوگ امریکہ کو گالی دیتے ہیں اور امریکہ کا ویزہ لینے کیلئے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو یہاں زاروقطار حالت میں ہیں۔ وہ تو نہیں جانا چاہتے۔ اگر وہ چلے بھی جائیں یا جانے پر مجبور کر دیئے گئے تو پھر بھی وہاں پاکستان کیلئے تڑپتے ہیں۔ فکرمند رہتے ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں۔ یہ خیالات ڈاکٹر شاہد مسعود کے تھے۔ وہ ڈاکٹر مہدی حسن کی بات سے بیزار ہوئے۔ ایک نوجوان نے یہ بھی کہا کہ وہ جو ہجرت کر کے آئے تھے۔ لہو اور آنسو کے دریا پار کر کے آئے تھے تو پاکستان ان کیلئے ایک ایسا ملک تھا جہاں وہ اپنے خدا سے محبت کی پناہ میں رہنا چاہتے تھے۔ ورنہ وہاں سے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس پر بھی ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ انہیں بھارت سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی کسی کو اچھی نہ لگی۔ لوگوں نے تو اس ہجرت کو بھی ہجرت مدینہ کی طرح دیکھا تھا مگر ریاست مدینہ جیسی مملکت ہمارے نصیب میں نہ تھی۔ ریاست مدینہ جیسی کوئی مثال تاریخ میں نہیں۔ ہم اب تک اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس انتظار نے لوگوں کو بے قرار کر رکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر تحریک پاکستان چلانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ قائداعظم کی جدوجہد کی ایک ایکسٹینشن ہو گی۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں کہنا چاہئے۔ اسلامی ریاست نہیں کہہ سکتے ہو تو مسلمان ریاست تو مان لو جبکہ وہ بھارت کو ہندو ریاست کہتے ہیں اور سیکولر بھی کہتے ہیں۔ جبکہ بھارت کے اندر رہنے والے اسے سیکولر ریاست نہیں مانتے۔ ہندوں کا بھی ایک نظریہ تھا۔ ہندوستان میں بھارت بن کے بھی وہ اس پر قائم ہیں کہ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔ مگر پاکستان جس نظریہ پر بنا۔ پاکستان کے اندر وہ اس کے خلاف ہیں۔ دل دل پاکستان یونہی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میں جانتا ہوں کہ اپنے چوائس پر اور اپنے دل کے کہنے پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے برطانیہ کی شہریت چھوڑ دی۔ پاکستان کیلئے محبت کی بات سچے دل سے کرنے کیلئے یہ کم سے کم قربانی ہے۔ ورنہ لوگ یہاں حکومت کرتے ہیں مگر وہ بندے برطانیہ اور امریکہ کے ہوتے ہیں۔ حکومت کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی محبت کو کچھ اور محبت بنانے کیلئے پاکستان میں واپس آ گئے ہیں۔!
پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹر مجاہد کامران نے پاکستانی ماحول بنانے کی کامیاب کوشش کر رکھی ہے۔ لمس (LUMS) یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں واضح فرق ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لڑکوں لڑکیوں سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے کہیں اور تو نہیں جانا چاہتے۔ پاکستان جیسا بھی ہے۔ اپنا گھر تو ہے۔ تمام طلبہ و طالبات نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ہم اپنے گھر میں رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ہمارا گھر ہے۔ ہم اپنے گھر سے کسی دوسرے گھر میں کیوں جائیں خواہ وہ کتنا ہی عالیشان کیوں نہ ہو۔ میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہوں۔ انگلستان سے ایک دوست آئے جو عالم اسلام اور پاکستان کے اندر فلاحی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی تنظیم کا نام مسلم ہینڈ ہے۔ وہ چند کالم نگاروں سے ملنا چاہتے تھے۔ وہ سب امیر کبیر علاقوں میں رہتے ہیں۔ جب میرے پاس آئے تو کہنے لگے۔ آپ اس چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ میں اپنے دل میں رہتا ہوں۔ اگر دل سے بڑا اور شاندار گھر کہیں ہے تو مجھے بتا دیں۔ میں پھر بھی وہاں نہیں جاوں گا۔ ڈاکٹر صاحب جب ایک والہانہ پن کے بانکپن سے دل دل پاکستان کہہ رہے تھے تو مجھے یہ بات یاد آئی۔ پاکستان ہمارا دل ہے۔ ہم دل و جان سے اس پر نثار ہیں۔ یہ پاکستان میں رہنے والے ہر آدمی کا خیال ہے۔ وہ جو پاکستان میں اس طرح رہتے ہیں جیسے اور کہیں رہتے ہوں۔ وہ یہاں حکومت کرنے‘ سیاست کرنے آتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے آتے ہیں۔ انہی لوگوں نے پاکستان پہ قبضہ کر رکھا ہے اور سچے پاکستانیوں کی زندگی کو شرمندگی بنا دیا ہے وہ اپنی زندگی اور درندگی میں کوئی فرق نہیں کرتے۔!
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ لوگ امریکہ کو گالی دیتے ہیں اور امریکہ کا ویزہ لینے کیلئے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو یہاں زاروقطار حالت میں ہیں۔ وہ تو نہیں جانا چاہتے۔ اگر وہ چلے بھی جائیں یا جانے پر مجبور کر دیئے گئے تو پھر بھی وہاں پاکستان کیلئے تڑپتے ہیں۔ فکرمند رہتے ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں۔ یہ خیالات ڈاکٹر شاہد مسعود کے تھے۔ وہ ڈاکٹر مہدی حسن کی بات سے بیزار ہوئے۔ ایک نوجوان نے یہ بھی کہا کہ وہ جو ہجرت کر کے آئے تھے۔ لہو اور آنسو کے دریا پار کر کے آئے تھے تو پاکستان ان کیلئے ایک ایسا ملک تھا جہاں وہ اپنے خدا سے محبت کی پناہ میں رہنا چاہتے تھے۔ ورنہ وہاں سے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس پر بھی ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ انہیں بھارت سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی کسی کو اچھی نہ لگی۔ لوگوں نے تو اس ہجرت کو بھی ہجرت مدینہ کی طرح دیکھا تھا مگر ریاست مدینہ جیسی مملکت ہمارے نصیب میں نہ تھی۔ ریاست مدینہ جیسی کوئی مثال تاریخ میں نہیں۔ ہم اب تک اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس انتظار نے لوگوں کو بے قرار کر رکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر تحریک پاکستان چلانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ قائداعظم کی جدوجہد کی ایک ایکسٹینشن ہو گی۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں کہنا چاہئے۔ اسلامی ریاست نہیں کہہ سکتے ہو تو مسلمان ریاست تو مان لو جبکہ وہ بھارت کو ہندو ریاست کہتے ہیں اور سیکولر بھی کہتے ہیں۔ جبکہ بھارت کے اندر رہنے والے اسے سیکولر ریاست نہیں مانتے۔ ہندوں کا بھی ایک نظریہ تھا۔ ہندوستان میں بھارت بن کے بھی وہ اس پر قائم ہیں کہ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔ مگر پاکستان جس نظریہ پر بنا۔ پاکستان کے اندر وہ اس کے خلاف ہیں۔ دل دل پاکستان یونہی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میں جانتا ہوں کہ اپنے چوائس پر اور اپنے دل کے کہنے پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے برطانیہ کی شہریت چھوڑ دی۔ پاکستان کیلئے محبت کی بات سچے دل سے کرنے کیلئے یہ کم سے کم قربانی ہے۔ ورنہ لوگ یہاں حکومت کرتے ہیں مگر وہ بندے برطانیہ اور امریکہ کے ہوتے ہیں۔ حکومت کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی محبت کو کچھ اور محبت بنانے کیلئے پاکستان میں واپس آ گئے ہیں۔!