لاہور (تجزیہ: فرخ بصیر) نصف نیٹو سپلائی ریلوے کے ذریعے بحال کرنے سے بحران سے دوچار پاکستان ریلوے نہ صرف اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکتی ہے بلکہ بھارتی ریلوے کی طرح منافع بخش ادارے میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے تاہم یہ خواب ریلو ے کو فوری طور پر نئے انجن اور فاضل پرزہ جات فراہم کرنے تک پورا نہیں ہو سکتا۔ فیصلہ اب 18 کروڑ عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کردہ 40 سفارشات میں بلامبالغہ پاکستانی ریاست کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے تاہم عام آدمی کو شک ہے کہ کیا حکومت اپنی سفارشات پر عمل درآمد بھی کر سکے گی؟ تاہم ریلوے کو نیٹو سپلائی کا نصف حصہ ملا، ڈیڑھ برس سے رکا ہوا فریٹ آپریشن شروع ہو جائے گا اور اس سے حاصل ہونے والے کثیر زرمبادلہ سے ریلوے پرانے انجنوں کی جلد مرمت اور نئے خریدنے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ واضح رہے کہ ریلوے کو پسنجر سیکٹر کی نسبت فریٹ سیکٹر میں ٹرین چلانے سے زیادہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ ایک آئل ٹرین لاہور اور کراچی کے درمیان چلانے سے ایک ارب روپے سالانہ منافع ملتا ہے اس کے برعکس پسنجر سیکٹر میں منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ 20 فیصد ہے۔ ریلوے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین کے مطابق کراچی تا پشاور ایک مال بردار ٹرین چلانے کے لئے کم از کم 6 انجنوں کی ضرورت ہے چنانچہ حکومت نیٹو سپلائی ریلوے کے ذریعے بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے نئے انجنوں کی خریداری کے لئے فوری طور پر ریلوے کو خطیر رقم فراہم کرنا ہو گی یا اعلیٰ عدلیہ کو چین سے خریدے گئے 75 انجنوں کے کیس کا جلد فیصلہ کرنا ہو گا۔ مکینیکل ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ریلوے کے پاس مجموعی طور پر 3000 ہارس پاور کے 44 انجن ہیں جو طویل فاصلے کے نان سٹاپ ایکسپریس ٹرینوں کے ساتھ لگائے جاتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024