کیا فاقہ مست عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد کی کال دی جا رہی ہے؟
سٹیٹ بنک نے اپنی دوسری سہ ماہی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ حکومت اپنی حد پر قائم نہیں رہ سکی‘ اس لئے حکومت کی جانب سے بنکوں سے حاصل کردہ بھاری قرضوں سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ معاشی عدم استحکام کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتی قرضے نومبر 2011ءکے بعد تیزی سے بڑھ کر 219.2 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ ملک میں توانائی کی قلت سے پیداواری بالخصوص صنعتی شعبے کی سرگرمیاں محدود ہو رہی ہیں اس لئے مالیاتی خسارے کو نظرثانی شدہ ہدف تک محدود رکھنا مشکل ہو گا۔ رپورٹ میں اتحادی سپورٹ فنڈز اور یورو بانڈز کی وصولیوں میں غیریقینی کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کو قرضوں کی واپسی سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو سکتے ہیں جبکہ زرمبادلہ کی رقوم کی آمد میں سست روی نے ملک کے ادائیگیوں کے توازن سے متعلق خدشات بڑھا دیئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران روپے کی قدر 4.4 فیصد گر چکی ہے جبکہ مالی سال کی دوسری ششماہی میں معاشی استحکام کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے ہیں جس کے باعث ملک میں مہنگائی 12 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔
مالیاتی پالیسی سے متعلق سٹیٹ بنک کی ہر سہ ماہی رپورٹ میں حکومتی بے ضابطگیوں اور قومی بنکوں سے دھڑا دھڑ قرضے لے کر اپنے اللے تللوں پر مبنی انتظامی معاملات کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی روش سے قومی معیشت کو لگنے والے جھٹکوں سے دوٹوک الفاظ میں آگاہ کیا جاتا ہے اور اصلاح احوال کی طرف توجہ دینے کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے مگر اپنی من مانیوں میں مصروف حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سٹیٹ بنک کے تین گورنر حکومتی بے ضابطگیوں کو درست کرنے کا درس دیتے دیتے مستعفی ہو گئے جبکہ حکومتی چال چلن دیکھ کر کوئی مستند ماہر اقتصادیات گورنر سٹیٹ بنک کا منصب قبول کرنے پر آمادہ نہیں چنانچہ حکومت کو ہر گورنر سٹیٹ بنک کے مستعفی ہونے پر قائم مقام گورنر سے کام چلانا پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو درست کرکے دگرگوں معیشت کو سنبھالنے اور روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل میں گھرے عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتی مگر حکومت نے سٹیٹ بنک کی ظاہر کی جانیوالی تشویشناک صورتحال پر کان دھرے‘ نہ اپنی بے ڈھنگی چال درست کرنے کی کوشش کی اور بنکوں سے دھڑا دھڑ قرضے لے کر روزمرہ کے معاملات چلانے کی روش برقرار رکھی‘ نتیجتاً مہنگائی کے سونامی کی زد میں آئے عوام الناس کے سروں پر اب ممکنہ نئی مہنگائی کی تلوار بھی لٹک گئی ہے جبکہ حکومتی ایڈہاک ازم کی زد میں آکر قومی معیشت کا توازن بھی انتہائی خراب ہو چکا ہے چنانچہ غیرمستحکم معیشت قومی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہونے دیگی۔
بدقسمتی سے امریکی مفادات کی جنگ میں شریک ہونے کی ہمارے حکمرانوں کی پالیسیوں سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی خراب ہوئی اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے یہاں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کا رسک لینا ترک کر دیا جس کے معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہوئے۔ دوسری جانب بجلی اور گیس کی بے ہنگم لوڈشیڈنگ نے صنعت و تجارت کا پہیہ جامد کر دیا جس سے برآمدات نہ ہونے کے برابر رہ گئیں اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا جبکہ آئے روز کی جان لیوا مہنگائی نے بالخصوص تنخواہ دار طبقات کی قوت خرید کم کرکے ان کا کچومر نکال دیا۔ سیلاب اور زلزلوں کی شکل میں آنیوالی قدرتی آفات نے بھی انسانی زندگیوں اور ملکی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے جن سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے حکومت نے قومی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوئی ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بندی طے کرنے کے بجائے بیرونی قرضوں اور امداد پر تکیہ کرلیا اور قومی بجٹ کے کئی ترقیاتی منصوبے اس متوقع بیرونی امداد کے ماتحت کر دیئے مگر امریکہ نے پاکستان کی امداد کو کڑی شرائط کے ساتھ باندھ کر کیری لوگر بل کے تحت منظور کی گئی اپنی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا‘ آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے مزید قرضوں کا باب بھی بند کر دیا اور نام نہاد فرینڈز آف پاکستان کی اعلان کردہ امداد کا ایک دھیلہ تک پاکستان کو نہ مل سکا۔ چنانچہ بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوا اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام شروع نہ ہو سکا۔
حکمرانوں کے پاس بجٹ خسارہ پورا کرنے کا ایک ہی راستہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ در بوجھ لادنے کا ہوتا ہے‘ چنانچہ حکمرانوں نے یہ راستہ اختیار کرکے عوام کا مزید کچومر نکالا مگر اپنے شاہانہ اخراجات اور اللے تللوں میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ اب اگرچہ نئے صدارتی آرڈی نینس کے تحت سٹیٹ بنک کو حکومتی قرضے کنٹرول کرنے کا اختیار مل چکا ہے مگر اس سے پہلے حکومت سوا دو سو ارب روپے کے قریب جو قرضے لے چکی ہے‘ انکی ادائیگی تو بہرصورت عوام کے چچوڑے گئے جسموں میں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر ہی کی جائیگی جس کیلئے مختلف مدات میں مزید ٹیکس عائد کرنے اور بجلی‘ پٹرول‘ گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے کے اعلانات و اقدامات تواتر سے جاری ہیں۔ حکمران اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے کا کریڈٹ لینے کی منصوبہ بندی میں عوام کو کند چھری سے ذبح کرتے جا رہے ہیں‘ نتیجتاً زندہ درگور انسانوں کا معاشرہ عملاً قبرستان میں تبدیل ہو رہا ہے۔
اس وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسی تناسب سے خط غربت سے نیچے جانےوالے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ میں تو مہنگائی 12 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ملک اور عوام کو بے توقیر کرنیوالے حکمران جس تناسب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں‘ اسکے نتیجہ میں مہنگائی بڑھنے کا تناسب 20 سے 25 فیصد تک بھی جا سکتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہائیکورٹ نے صنعتوں پر بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو کالعدم قرار دیا تو یہ سارا بوجھ عام صارفین پر ڈالنے کی حکمت عملی طے کرلی گئی۔ اب عوام کو 24 گھنٹے میں سے صرف چار پانچ گھنٹے روزانہ دستیاب ہونیوالی بجلی اگلے چھ ماہ تک 6.39 روپے فی یونٹ مہنگی دستیاب ہو گی کیونکہ اکتوبر 2011ءسے جنوری 2012ءتک کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز صارفین کے آنیوالے بجلی کے بلوں میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو یقیناً اس کا اندازہ نہیں ہو گا کہ جو عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستے کراہ رہے ہیں‘ وہ بجلی کی سہولت سے محروم رہ کر بھی پہلے سے دوگنا بجلی کے بل کیونکر ادا کر پائینگے؟
عوام دوست حکمرانوں نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ تیل کے نرخوں میں عالمی سطح پر اضافے کو جواز بنا کر آئندہ ماہ یکم اپریل سے پٹرولیم کے نرخوں میں فی لیٹر 7.67 روپے مزید اضافہ کی سمری پہلے ہی تیار کرکے وزیراعظم کی میز پر رکھوا دی گئی ہے‘ اسی طرح قومی بجٹ سے پہلے پہلے یوٹیلٹی سٹورز پر دستیاب اشیاءکے نرخوں میں بھی 15 سے 20 فیصد تک مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں روٹی روزگار کے مسائل سے عاجز آئے عوام زندہ بھی رہ پائیں گے یا نہیں؟ حکمرانوں کو اس سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ اس وقت آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے حصول کا باب تو بند ہو چکا ہے مگر پہلے سے حاصل شدہ قرضوں پر حکومت کو رواں مالی سال میں آئی ایم ایف کو 1.1 ارب ڈالر واپس کرنا ہیں۔ خود اپنے انتظامی معاملات قومی بنکوں سے قرضے لے کر چلانے والی حکومت لامحالہ آئی ایم ایف کے قرض بمعہ سود کی بھی اپنے بنکوں سے قرضہ لے کر اور مزید ٹیکسوں سے بھوکے ننگے عوام کی ہڈی پسلی توڑ کر ہی ادائیگی کریگی۔ اس صورتحال میں فلاحی معاشرے کا تصور تو کجا‘ کسی زندہ انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکمران سٹیٹ بنک کی وارننگ اور روٹی روزگار کے مسائل کے ستائے عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد پر آمادہ ہوتے دیکھ کر بھی کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں تو پھر انہیں کم از کم عرب ریاستوں کے حکمرانوں جیسے انجام سے دوچار ہونے کیلئے ضرور تیار رہنا چاہیے۔
اے این پی کی قائداعظمؒ سے دشمنی عیاں ہو گئی
اے این پی نے خیبر پی کے میں نویں جماعت کی اردو کتاب سے قائداعظم محمد علی جناح سے متعلق مضمون نکال دیا ہے، دوسری درسی کتب سے بھی بانی پاکستان سے متعلق مواد نکالنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔18 ویں ترمیم کے تحت جب سے شعبہ تعلیم صوبوں کے سپرد ہوا ہے۔سیاسی جماعتوں کے ارباب بست وکشاد نے نصاب تعلیم میں من پسند تبدیلیاں شروع کر دی ہیں حالانکہ پورے ملک کا تعلیمی نظام نظریہ پاکستان کی روشنی میں ترتیب دینا چاہئے۔ اے این پی نے بانی پاکستان کا نام اردو کی کتاب سے حذف کر کے اپنا خبث باطن ظاہر کر دیا ہے۔ سرحدی گاندھی کے نام لیواﺅںکو قائداعظم کا نام کیسے برداشت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے آج تک پاکستان کو قبول نہیں کیا، اسی وجہ سے پاکستانی مٹی نے باچا خان کے وجود کو برداشت نہ کر کے کابل کے کھنڈرات کیطرف دھکیل دیا اے این پی نے اس سے قبل اسلامیات اور سائنس کی کتابوں سے قرآنی آیات نکالنے کا گھناﺅنا کھیل کھیلا۔ علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے اس کیخلاف بھرپور احتجاج کیا جس پر سرخ پوش جماعت نے فیصلہ واپس لیا۔اس وقت خیبر پی کے میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین باچا خان ٹرسٹ کے سربراہ ہیں، باچا کی نظریاتی سوچ پر گامزن اس چیئرمین سے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اے این پی کو اگر قائداعظمؒ کی خدمات میں کوئی مواد اچھا نہیں لگتا تو انہیں چاہئے کہ وہ باچا خان کے پاس چلے جائیں۔ انہی کی تیار کردہ نجس اشیاءکو استعمال کریں۔ ایسے لوگوں کی پاکستان میں گنجائش نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اے این پی کی قائد دشمنی کا فی الفور نوٹس لے اور نصاب سے قائد کے متعلق مضامین نکالنے والے لو گوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے کیونکہ ان لوگوں نے قائد کی توہین کی ہے۔ وفاق شعبہ تعلیم کو صوبوں کے سپرد کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ اسی طرح تو ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق نصاب تعلیم میں تبدیلی کرنا شروع کر دیگا جس سے نظام تعلیم کا ربط برقرار نہیں رہ پائے گا‘ جس سے تعلیم پر برے اثرات مرتب ہونگے۔
ڈانسنگ کلچر کا فروغ پنجاب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ
ہمارے لاہور کے نامہ نگار کے سروے کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ کلبوں اور کیفیز میں ڈانسنگ ہالز اور ڈانسنگ فلور قائم کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ آج جو ڈانسنگ ہال چل رہے ہیں‘ ان میں داخلے کیلئے ایک سے دو ہزار فی جوڑا فیس مقرر ہے۔ سینما گھروں میں دکھائی جانیوالی فحش بھارتی فلموں اور کیبل پر چلنے والے بھارتی چینلز نے نوجوان نسل کا کردار بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈانسنگ جیسی خرافات بھی کچھ بھارتی چینلز‘ کچھ مغربی میڈیا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی وجہ سے معاشرے میں درآئی ہیں۔ نئی نسل کو ان خرافات سے بچانے کیلئے اولین کوشش تو والدین کو کرنی چاہیے کہ اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں۔ موبائل اور کمپیوٹر کا بے جا استعمال نہ ہونے دیں۔ بھارت میں سوائے بھارت نواز چینلز کے پاکستانی چینلز دکھانے پر پابندی ہے۔ ہمارے ہاں پیمرا حکام غفلت کی نیند سو رہے ہیں‘ پاکستان میں بھارتی چینلز دکھانے پر یکسر پابندی عائد کی جانی چاہیے تاکہ برائی کا ”بی“ مارا جا سکے۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے‘ یہاں مغرب کی نقالی کی گنجائش نہیں۔ لوگ تو مخلوط محفلیں بھی برداشت نہیں کر سکتے‘ ہیجان خیز رقص اور ہلاگلا کیسے برداشت کر سکیں گے۔ تھیٹر ہالز میں فحش رقص پر پابندی ہے‘ جو کچھ ڈانسنگ کلبوں میں ہوتا ہے‘ فحش رقص کا اگلہ درجہ ہے۔ اسلامی شعار کا احترام کرنیوالے وزیراعلیٰ کی حکومت کے دوران ایسا ہونا افسوسناک ہے۔ ڈانسنگ کی بیماری ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے‘ اس کو یہیں پر ختم کر دینا چاہیے۔
لاپتہ افراد.... عدلیہ اور ایجنسیوں کے مابین اعتماد کی ضرورت
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے لگائے گئے کیمپ سے اٹھائے جانےوالے عمر ولی محمود کیس کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کئی بار کہہ چکے ہیں‘ بغیر مقدمہ کے کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ جنگل کا بھی قانون ہوتا ہے یہاں وہ بھی نہیں۔لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کر دینا لاقانونیت اور سپریم کورٹ کے بار بار منع کرنے کے باوجود بھی ایسے اقدامات قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی بھی فرد غیر قانونی کارروائی کا مرتکب ہوتا ہے تو مروجہ قوانین میں اس کے احتساب کا ایک طریقہ کار موجود ہے اس کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے زیادہ تر کیسز خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ایجنسی کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا ایجنسیاں ملکی مفادات کے خلاف اقدامات پر آنکھیں بند نہیں کر سکتیں۔ اگر ایجنسیوں کے پاس کسی بھی فرد کے بارے میں قومی جرائم کے ثبوت ہیں تو ان کو غائب کر دینا مناسب نہیں۔ وہ عدلیہ کو اگر کھلے عام کچھ بتانے سے گریزاں ہیں تو ان کیمرہ سماعت کی استدعا کی جا سکتی ہے عدلیہ کو بھی چاہیے کہ ایسی استدعا کو پذیرائی بخشے تاکہ مجرم سزا سے بچ سکیںاور نہ ایجنسیوں پر لوگوں کو غائب کرنے کا الزام آئے۔ ایسا کرنے سے عدلیہ اور ایجنسیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہو گا جو یقینا قوم و ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
5
سٹیٹ بنک نے اپنی دوسری سہ ماہی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ حکومت اپنی حد پر قائم نہیں رہ سکی‘ اس لئے حکومت کی جانب سے بنکوں سے حاصل کردہ بھاری قرضوں سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ معاشی عدم استحکام کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومتی قرضے نومبر 2011ءکے بعد تیزی سے بڑھ کر 219.2 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ ملک میں توانائی کی قلت سے پیداواری بالخصوص صنعتی شعبے کی سرگرمیاں محدود ہو رہی ہیں اس لئے مالیاتی خسارے کو نظرثانی شدہ ہدف تک محدود رکھنا مشکل ہو گا۔ رپورٹ میں اتحادی سپورٹ فنڈز اور یورو بانڈز کی وصولیوں میں غیریقینی کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کو قرضوں کی واپسی سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو سکتے ہیں جبکہ زرمبادلہ کی رقوم کی آمد میں سست روی نے ملک کے ادائیگیوں کے توازن سے متعلق خدشات بڑھا دیئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران روپے کی قدر 4.4 فیصد گر چکی ہے جبکہ مالی سال کی دوسری ششماہی میں معاشی استحکام کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے ہیں جس کے باعث ملک میں مہنگائی 12 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔
مالیاتی پالیسی سے متعلق سٹیٹ بنک کی ہر سہ ماہی رپورٹ میں حکومتی بے ضابطگیوں اور قومی بنکوں سے دھڑا دھڑ قرضے لے کر اپنے اللے تللوں پر مبنی انتظامی معاملات کو روزانہ کی بنیاد پر چلانے کی روش سے قومی معیشت کو لگنے والے جھٹکوں سے دوٹوک الفاظ میں آگاہ کیا جاتا ہے اور اصلاح احوال کی طرف توجہ دینے کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے مگر اپنی من مانیوں میں مصروف حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سٹیٹ بنک کے تین گورنر حکومتی بے ضابطگیوں کو درست کرنے کا درس دیتے دیتے مستعفی ہو گئے جبکہ حکومتی چال چلن دیکھ کر کوئی مستند ماہر اقتصادیات گورنر سٹیٹ بنک کا منصب قبول کرنے پر آمادہ نہیں چنانچہ حکومت کو ہر گورنر سٹیٹ بنک کے مستعفی ہونے پر قائم مقام گورنر سے کام چلانا پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو درست کرکے دگرگوں معیشت کو سنبھالنے اور روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل میں گھرے عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتی مگر حکومت نے سٹیٹ بنک کی ظاہر کی جانیوالی تشویشناک صورتحال پر کان دھرے‘ نہ اپنی بے ڈھنگی چال درست کرنے کی کوشش کی اور بنکوں سے دھڑا دھڑ قرضے لے کر روزمرہ کے معاملات چلانے کی روش برقرار رکھی‘ نتیجتاً مہنگائی کے سونامی کی زد میں آئے عوام الناس کے سروں پر اب ممکنہ نئی مہنگائی کی تلوار بھی لٹک گئی ہے جبکہ حکومتی ایڈہاک ازم کی زد میں آکر قومی معیشت کا توازن بھی انتہائی خراب ہو چکا ہے چنانچہ غیرمستحکم معیشت قومی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہونے دیگی۔
بدقسمتی سے امریکی مفادات کی جنگ میں شریک ہونے کی ہمارے حکمرانوں کی پالیسیوں سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی خراب ہوئی اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں نے یہاں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کا رسک لینا ترک کر دیا جس کے معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہوئے۔ دوسری جانب بجلی اور گیس کی بے ہنگم لوڈشیڈنگ نے صنعت و تجارت کا پہیہ جامد کر دیا جس سے برآمدات نہ ہونے کے برابر رہ گئیں اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوا جبکہ آئے روز کی جان لیوا مہنگائی نے بالخصوص تنخواہ دار طبقات کی قوت خرید کم کرکے ان کا کچومر نکال دیا۔ سیلاب اور زلزلوں کی شکل میں آنیوالی قدرتی آفات نے بھی انسانی زندگیوں اور ملکی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے جن سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے حکومت نے قومی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوئی ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بندی طے کرنے کے بجائے بیرونی قرضوں اور امداد پر تکیہ کرلیا اور قومی بجٹ کے کئی ترقیاتی منصوبے اس متوقع بیرونی امداد کے ماتحت کر دیئے مگر امریکہ نے پاکستان کی امداد کو کڑی شرائط کے ساتھ باندھ کر کیری لوگر بل کے تحت منظور کی گئی اپنی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا‘ آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے مزید قرضوں کا باب بھی بند کر دیا اور نام نہاد فرینڈز آف پاکستان کی اعلان کردہ امداد کا ایک دھیلہ تک پاکستان کو نہ مل سکا۔ چنانچہ بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوا اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام شروع نہ ہو سکا۔
حکمرانوں کے پاس بجٹ خسارہ پورا کرنے کا ایک ہی راستہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ در بوجھ لادنے کا ہوتا ہے‘ چنانچہ حکمرانوں نے یہ راستہ اختیار کرکے عوام کا مزید کچومر نکالا مگر اپنے شاہانہ اخراجات اور اللے تللوں میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ اب اگرچہ نئے صدارتی آرڈی نینس کے تحت سٹیٹ بنک کو حکومتی قرضے کنٹرول کرنے کا اختیار مل چکا ہے مگر اس سے پہلے حکومت سوا دو سو ارب روپے کے قریب جو قرضے لے چکی ہے‘ انکی ادائیگی تو بہرصورت عوام کے چچوڑے گئے جسموں میں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر ہی کی جائیگی جس کیلئے مختلف مدات میں مزید ٹیکس عائد کرنے اور بجلی‘ پٹرول‘ گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنے کے اعلانات و اقدامات تواتر سے جاری ہیں۔ حکمران اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے کا کریڈٹ لینے کی منصوبہ بندی میں عوام کو کند چھری سے ذبح کرتے جا رہے ہیں‘ نتیجتاً زندہ درگور انسانوں کا معاشرہ عملاً قبرستان میں تبدیل ہو رہا ہے۔
اس وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسی تناسب سے خط غربت سے نیچے جانےوالے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ میں تو مہنگائی 12 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ملک اور عوام کو بے توقیر کرنیوالے حکمران جس تناسب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں‘ اسکے نتیجہ میں مہنگائی بڑھنے کا تناسب 20 سے 25 فیصد تک بھی جا سکتا ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہائیکورٹ نے صنعتوں پر بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو کالعدم قرار دیا تو یہ سارا بوجھ عام صارفین پر ڈالنے کی حکمت عملی طے کرلی گئی۔ اب عوام کو 24 گھنٹے میں سے صرف چار پانچ گھنٹے روزانہ دستیاب ہونیوالی بجلی اگلے چھ ماہ تک 6.39 روپے فی یونٹ مہنگی دستیاب ہو گی کیونکہ اکتوبر 2011ءسے جنوری 2012ءتک کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز صارفین کے آنیوالے بجلی کے بلوں میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو یقیناً اس کا اندازہ نہیں ہو گا کہ جو عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستے کراہ رہے ہیں‘ وہ بجلی کی سہولت سے محروم رہ کر بھی پہلے سے دوگنا بجلی کے بل کیونکر ادا کر پائینگے؟
عوام دوست حکمرانوں نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ تیل کے نرخوں میں عالمی سطح پر اضافے کو جواز بنا کر آئندہ ماہ یکم اپریل سے پٹرولیم کے نرخوں میں فی لیٹر 7.67 روپے مزید اضافہ کی سمری پہلے ہی تیار کرکے وزیراعظم کی میز پر رکھوا دی گئی ہے‘ اسی طرح قومی بجٹ سے پہلے پہلے یوٹیلٹی سٹورز پر دستیاب اشیاءکے نرخوں میں بھی 15 سے 20 فیصد تک مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں روٹی روزگار کے مسائل سے عاجز آئے عوام زندہ بھی رہ پائیں گے یا نہیں؟ حکمرانوں کو اس سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ اس وقت آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے حصول کا باب تو بند ہو چکا ہے مگر پہلے سے حاصل شدہ قرضوں پر حکومت کو رواں مالی سال میں آئی ایم ایف کو 1.1 ارب ڈالر واپس کرنا ہیں۔ خود اپنے انتظامی معاملات قومی بنکوں سے قرضے لے کر چلانے والی حکومت لامحالہ آئی ایم ایف کے قرض بمعہ سود کی بھی اپنے بنکوں سے قرضہ لے کر اور مزید ٹیکسوں سے بھوکے ننگے عوام کی ہڈی پسلی توڑ کر ہی ادائیگی کریگی۔ اس صورتحال میں فلاحی معاشرے کا تصور تو کجا‘ کسی زندہ انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکمران سٹیٹ بنک کی وارننگ اور روٹی روزگار کے مسائل کے ستائے عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد پر آمادہ ہوتے دیکھ کر بھی کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں تو پھر انہیں کم از کم عرب ریاستوں کے حکمرانوں جیسے انجام سے دوچار ہونے کیلئے ضرور تیار رہنا چاہیے۔
اے این پی کی قائداعظمؒ سے دشمنی عیاں ہو گئی
اے این پی نے خیبر پی کے میں نویں جماعت کی اردو کتاب سے قائداعظم محمد علی جناح سے متعلق مضمون نکال دیا ہے، دوسری درسی کتب سے بھی بانی پاکستان سے متعلق مواد نکالنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔18 ویں ترمیم کے تحت جب سے شعبہ تعلیم صوبوں کے سپرد ہوا ہے۔سیاسی جماعتوں کے ارباب بست وکشاد نے نصاب تعلیم میں من پسند تبدیلیاں شروع کر دی ہیں حالانکہ پورے ملک کا تعلیمی نظام نظریہ پاکستان کی روشنی میں ترتیب دینا چاہئے۔ اے این پی نے بانی پاکستان کا نام اردو کی کتاب سے حذف کر کے اپنا خبث باطن ظاہر کر دیا ہے۔ سرحدی گاندھی کے نام لیواﺅںکو قائداعظم کا نام کیسے برداشت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے آج تک پاکستان کو قبول نہیں کیا، اسی وجہ سے پاکستانی مٹی نے باچا خان کے وجود کو برداشت نہ کر کے کابل کے کھنڈرات کیطرف دھکیل دیا اے این پی نے اس سے قبل اسلامیات اور سائنس کی کتابوں سے قرآنی آیات نکالنے کا گھناﺅنا کھیل کھیلا۔ علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے اس کیخلاف بھرپور احتجاج کیا جس پر سرخ پوش جماعت نے فیصلہ واپس لیا۔اس وقت خیبر پی کے میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین باچا خان ٹرسٹ کے سربراہ ہیں، باچا کی نظریاتی سوچ پر گامزن اس چیئرمین سے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اے این پی کو اگر قائداعظمؒ کی خدمات میں کوئی مواد اچھا نہیں لگتا تو انہیں چاہئے کہ وہ باچا خان کے پاس چلے جائیں۔ انہی کی تیار کردہ نجس اشیاءکو استعمال کریں۔ ایسے لوگوں کی پاکستان میں گنجائش نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اے این پی کی قائد دشمنی کا فی الفور نوٹس لے اور نصاب سے قائد کے متعلق مضامین نکالنے والے لو گوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے کیونکہ ان لوگوں نے قائد کی توہین کی ہے۔ وفاق شعبہ تعلیم کو صوبوں کے سپرد کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے کیونکہ اسی طرح تو ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق نصاب تعلیم میں تبدیلی کرنا شروع کر دیگا جس سے نظام تعلیم کا ربط برقرار نہیں رہ پائے گا‘ جس سے تعلیم پر برے اثرات مرتب ہونگے۔
ڈانسنگ کلچر کا فروغ پنجاب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ
ہمارے لاہور کے نامہ نگار کے سروے کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ کلبوں اور کیفیز میں ڈانسنگ ہالز اور ڈانسنگ فلور قائم کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ آج جو ڈانسنگ ہال چل رہے ہیں‘ ان میں داخلے کیلئے ایک سے دو ہزار فی جوڑا فیس مقرر ہے۔ سینما گھروں میں دکھائی جانیوالی فحش بھارتی فلموں اور کیبل پر چلنے والے بھارتی چینلز نے نوجوان نسل کا کردار بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈانسنگ جیسی خرافات بھی کچھ بھارتی چینلز‘ کچھ مغربی میڈیا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی وجہ سے معاشرے میں درآئی ہیں۔ نئی نسل کو ان خرافات سے بچانے کیلئے اولین کوشش تو والدین کو کرنی چاہیے کہ اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں۔ موبائل اور کمپیوٹر کا بے جا استعمال نہ ہونے دیں۔ بھارت میں سوائے بھارت نواز چینلز کے پاکستانی چینلز دکھانے پر پابندی ہے۔ ہمارے ہاں پیمرا حکام غفلت کی نیند سو رہے ہیں‘ پاکستان میں بھارتی چینلز دکھانے پر یکسر پابندی عائد کی جانی چاہیے تاکہ برائی کا ”بی“ مارا جا سکے۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے‘ یہاں مغرب کی نقالی کی گنجائش نہیں۔ لوگ تو مخلوط محفلیں بھی برداشت نہیں کر سکتے‘ ہیجان خیز رقص اور ہلاگلا کیسے برداشت کر سکیں گے۔ تھیٹر ہالز میں فحش رقص پر پابندی ہے‘ جو کچھ ڈانسنگ کلبوں میں ہوتا ہے‘ فحش رقص کا اگلہ درجہ ہے۔ اسلامی شعار کا احترام کرنیوالے وزیراعلیٰ کی حکومت کے دوران ایسا ہونا افسوسناک ہے۔ ڈانسنگ کی بیماری ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے‘ اس کو یہیں پر ختم کر دینا چاہیے۔
لاپتہ افراد.... عدلیہ اور ایجنسیوں کے مابین اعتماد کی ضرورت
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے لگائے گئے کیمپ سے اٹھائے جانےوالے عمر ولی محمود کیس کی سماعت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کئی بار کہہ چکے ہیں‘ بغیر مقدمہ کے کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ جنگل کا بھی قانون ہوتا ہے یہاں وہ بھی نہیں۔لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کر دینا لاقانونیت اور سپریم کورٹ کے بار بار منع کرنے کے باوجود بھی ایسے اقدامات قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی بھی فرد غیر قانونی کارروائی کا مرتکب ہوتا ہے تو مروجہ قوانین میں اس کے احتساب کا ایک طریقہ کار موجود ہے اس کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے زیادہ تر کیسز خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ایجنسی کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا ایجنسیاں ملکی مفادات کے خلاف اقدامات پر آنکھیں بند نہیں کر سکتیں۔ اگر ایجنسیوں کے پاس کسی بھی فرد کے بارے میں قومی جرائم کے ثبوت ہیں تو ان کو غائب کر دینا مناسب نہیں۔ وہ عدلیہ کو اگر کھلے عام کچھ بتانے سے گریزاں ہیں تو ان کیمرہ سماعت کی استدعا کی جا سکتی ہے عدلیہ کو بھی چاہیے کہ ایسی استدعا کو پذیرائی بخشے تاکہ مجرم سزا سے بچ سکیںاور نہ ایجنسیوں پر لوگوں کو غائب کرنے کا الزام آئے۔ ایسا کرنے سے عدلیہ اور ایجنسیوں کا ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہو گا جو یقینا قوم و ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔
5