بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی تھے۔ بے نظیر نے ابتدائی تعلیم کراچی اور راولپنڈی میں حاصل کی۔ بعد ازاں وہ ہارورڈ یونیورسٹی گئیں، جہاں انہوں نے 1973 میں گریجویشن کی۔ اس کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے 1977 میں فلسفہ، سیاست، اور معاشیات (پی پی ای) کی ڈگری حاصل کی۔بے نظیر بھٹو کے والد، ذوالفقار علی بھٹو، کو 1979 میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے پھانسی دے دی۔ اس وقت بے نظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف مزاحمت کی۔
1988 میں، ضیاءالحق کی حادثے میں موت کے بعد، پاکستان میں عام انتخابات ہوئے جن میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں اور انہوں نے مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔بے نظیر بھٹو کی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔ ان کی حکومت میں بدعنوانی کے الزامات اور معاشی مشکلات شامل تھیں۔ 1990 میں ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ 1993 میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں لیکن 1996 میں دوبارہ ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔1999 میں، پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر لیا اور بے نظیر بھٹو جلاوطنی پر مجبور ہو گئیں۔ وہ دبئی اور لندن میں مقیم رہیں۔ 2007 میں، انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کیں۔27 دسمبر 2007 کو، راولپنڈی میں ایک انتخابی ریلی کے دوران بے نظیر بھٹو کو قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔ ان کی موت نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر صدمے اور غم کا سبب بنی۔بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد، ان کے شوہر آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی اور سیاست میں خواتین کے حقوق، جمہوریت، اور معاشرتی انصاف کے لیے ان کی جدوجہد اہم رہی۔بے نظیر بھٹو کی زندگی ایک مثالی کہانی ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے اور آج بھی ان کی خدمات کو یاد کیا جاتا ہے۔
ہر سال 21 جون کا دن ہمیں یہ یاد دلانے ہی آتا ہے کہ اس دن ایک عظیم لیڈر کا جنم ہوا تھا۔ بے نظیر بھٹو ایک شاندار اور جاندار شخصیت کی مالک خاتون تھیں۔بے نظیر بھٹو نے جو سیاسی مقام حاصل کیا اگر چہ وہ ان کو اپنے والد کی جانب سے ورثے میں ملا لیکن عوام میں مقبول ہونے کیلئے ان کی ذاتی کاوشیں اور انتھک جدوجہد بھی شامل حال تھی جس کی وجہ سے وہ دو بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائض ہوئیں۔ انہیں سکیورٹی رسک قرار دیا گیا اور نوازشریف خاندان نے ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈاکیا لیکن بے نظیر بھٹو جس تہذیب سے تعلق رکھتی تھیں انہوں نے کبھی بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔نوے کی دہائی میں جب پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے درمیان سیاسی مخاصمت جاری تھی تو بے نظیر کے مخالفین نے ان کے بارے میں نازیبا نعرے بنائے اور یہاں تک کے ان کے بارے میں پمفلٹ تک بنا کر عوام میں تقسیم کئے گئے لیکن اس کے مقابلے میں بے نظیر نے کبھی بھی مخالفین کی ذاتی زندگی پر حملہ آور ہونے کی نہ تو کشش کی اور نہ ہی اس طرح کے کسی امر کی حوصلہ افزائی کی۔ راقم کی ان سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں، پاکستان میں بھی اور امریکہ لندن میں ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزرا۔ ہمیشہ بے نظیر نے چھوٹے بھائی، بیٹے کی طرح سمجھا اور شفقت برتی اور مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں اتنی بڑی لیڈر سے محو گفتگو ہوں۔امریکہ میں پورٹ لینڈ شہر میں راقم کو ان کے ساتھ کچھ دن گزارنے کا موقع ملا اور ان ملاقاتوں میں مارک سیگل بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ محترمہ کو پورٹ لینڈ کا ولمیٹ دریا بہت پسند تھا ،دریا کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے محترمہ نے اپنے بچپن کے بارے میں بتایا پھر اپنے بھائیوں مرتضیٰ اور شاہنواز کی باتیں بتائیں اور ان سے بات کر کے محسوس ہوا کہ وہ اپنے دونوں بھائیوں سے بے انتہا محبت کرتی تھیں اور اپنی بہن سے بھی انہیں بہت انس تھا اور اس لے علاوہ محترمہ سے دنیا جہاں کی باتیں ہوئیں۔ان سے بات کر کے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ ایک صاحب مطالعہ خاتون تھیں اور انہیں ملکی سیاست کے علاوہ عالمی سیاست پر بھی عبور حاصل تھا۔وزارت عظمیٰ پر بھی رہیں پھر جلا وطنی بھی برداشت کی لیکن بے نظیر نے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور بچوں کی بھی یہی تعلیم دی کہ شائستگی اور تہذیب کے ساتھ سیاست کرنی ہے جس کا عملی مظاہرہ آج بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔یہ بے نظیر ہی کی ذات کا کرشمہ تھا کہ ان کے جانے کے بعد مسلسل پیپلزپارٹی سندھ میں بر سر اقتدار ہے اور ایک بار وفاق میں حکومت کر چکی ہے جبکہ ان کے شوہر قصر صدارت کے مکین رہ چکے ہیں اور اب دوبارہ صدر بنے ہیں۔یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک کرشماتی شخصیت تھیں اور ان کے بعد تاحال پیپلز پارٹی میں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو ان کا خلا بھر سکے یا ان کا متبادل ثابت ہو۔باقی رہے نام اللہ کا۔۔۔