بدھ ،22 ذیقعد 1443ھ،22جون 2022 ء

پنجاب اسمبلی کے ارکان کے اثاثوں کی فہرست جاری
سچ کہیں تو یہ فہرست دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے تو نہایت مفلوک الحال ہیں۔ وہ لوگ بھی جو اربوں روپوں کے گھروں میں رہتے ہیں‘ بمشکل کروڑ پتی ہیں جبکہ ان کے کاروبار اور جائیدادوں کا تو حساب ہی مشکل ہے۔ لے دیکر ایک علیم خان ایسے مرد میدان نکلے ہیں جنہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر خود کو ارب پتی ظاہر کیا ہے‘ ورنہ باقی سب کی فہرست صرف چینی پتی والی ہے۔ یہ سب اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ کروڑوں کے گھر‘ بنگلے‘ کارخانے‘ فیکٹریاں‘ زرعی اراضی‘ خالی پلاٹس‘ زیورات‘ گاڑیاں‘ بیرون ملک گھر‘ فلیٹ‘ بنگلے جن کی اولادیں غیر ملک میں پڑھتی ہیں۔ اب اگر ان کے اثاثوں کی فہرست دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان اثاثوں کے مطابق تو یہ بے چارے غریب خود کروڑوں کے قرضے دار بھی ہیں۔ حکومت ایک نیک کام کرے۔ یہ اثاثے جتنی مالیت کے درج ہیں‘ ان کو نیلامی پر لگا دے۔ کروڑوں پاکستانی بخوشی اس ریٹ پر خریدنے کو تیار ملیں گے جو ریکارڈ میں درج ہے۔ یہ ارکان اسمبلی کروڑوں کی مالیت کو چند لاکھ لکھوا کر عوام اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ کروڑوں کا ٹیکس بچا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کسی بھی رکن اسمبلی خواہ حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے‘ ان کی ایک گھر کو اس کی درج شدہ قیمت پر فروخت کا اشتہارتو دیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ‘ فیصل آباد‘ سکھر‘ پشاور‘ بنوں‘ مردان‘ حیدرآباد میں ان کا ایک گھر کم از کم 10 کروڑ کا نکلے گا۔
جو چند لاکھ لکھا ہے۔ بہتر ہے حکومت یہ ارزاں قیمت والی جائیدادیں خرید کر ان کی رقم ان غریب ارکان اسمبلی کو نقد دے تاکہ ان کے معاشی حالات بہتر ہوں۔ عوام کو ان لوگوں دیکھ کر ہی کرپشن کے طریقے سیکھتے ہیں۔
٭٭……٭٭
ٹیچرز سے مذاکرات کامیاب‘ بنی گالہ میں دھرنا‘ احتجاج ختم
خیبر پی کے میں ایڈہاک اساتذہ طویل عرصہ سے اپنی ملازمتوں اور مراعاتوں کے حوالے سے سراپا احتجاج تھے۔ آئے روز جلسے ہوتے‘ جلوس نکلتے مگر خیبر پی کے حکومت نے اس طرف سے آنکھیں اور کان بند رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ یوںیہ احتجاجی تحریک جاری رہی۔ جب ایڈہاک اساتذہ نے دیکھا کہ پشاور حکومت انہیں چپلی کباب بنا کر اس گرمی میں سڑکوں پر تلنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے تو انہوں نے اچانک بنی گالہ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش کے ہاہر احتجاجی کیمپ لگا لیا۔ کئی دن وہ وہاں پڑے رہے مگر عمران خان صاحب نے انہیں شرف باریابی نہیں بخشی۔ یوں وہ یہاں بھی پریشان رہے۔ ویسے خان صاحب کی اپنی سائیکی ہے۔ وہ جنازوں کی طرح کسی بھی احتجاج پر نہیں جاتے۔ سو اب بھی یہی ہوا۔ مگر گزشتہ دنوں جب ان مظاہرین نے بنی گالہ کے محل تک جانے والی سڑک بلاک کر دی تو اعجاز چودھری‘ شیریں مزاری‘ اسد عمر کیلئے خان صاحب کے ساتھ شرف ملاقات مشکل ہو گئی۔ اس پر علی محمد خان اور مراد سعید جیسے قابل اعتماد نورتنوں نے ان اساتذہ کو پشتو ٹپے اور قصے سناکر بالآخر بہلا ہی لیا اور انہیں کامیاب مذاکرات کا لالی پاپ دیکر واپس پشاور کی طرف رخصت کر دیا۔ اب شاید قصہ خوانی بازار پہنچ کر ان اساتذہ کو یاد آئے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا کیونکہ یہ مسئلہ پشاور حکومت کا ہے۔ عمران خان‘ علی محمد خان اور مراد سعید کا نہیں‘ وہ تو اب نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ صوبائی حکومت نے تو ان اساتذہ کو گھاس نہیں ڈالا۔ مذاکرات نہیں کئے تو پھر ان کے مطالبات کی ذمہ داری کون لے گا۔
تاجر مارکیٹیں‘ کاروبار 9 بجے شب بند کرنے پر تقسیم۔
عجیب لوگ ہیں ہم اگر کوئی ہمیں فطرت کے مطابق کام کرنے‘ زندگی بسر کرنے کے لئے کہتا ہے تو ہم اس کی نہیں سنتے‘ اپنی من مرضی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں کاروبار کے اوقات صبح سے شام تک ہوتے ہیں۔ سُرمئی شام کے ڈھلتے ہی شب کی تاریکی آبادیوں کو اپنی آغوش میں لیتی ہے‘کاروباری اور تجارتی مراکز کی چکا چوند روشنیاں عشوہ طرازیاں لمحہ بہ لمحہ مدھم پڑتی ہیں اور اولین شب میں کاروبار و تجارت کا سلسلہ تھم جاتا ہے۔ یورپ میں شام ڈھلتے ہی مئے کدے‘ ہوٹل‘ کلبز‘ چائے خانے کیسنیو آباد ہو جاتے ہیں۔ یوں دن بھر کی تھکی زندگی آہستہ آہستہ نیند کی بانہوں میں سما جاتی ہے۔ دن اوراپنی تھکن اتارتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی پہلے دن بھر کام رات کو آرام کا دور دورہ تھا۔ مگر جیسے جیسے جدیدیت ہماری زندگی میں در آئی‘ ہم نے انسانوں والی صفات ترک کرنا شروع کر دیں۔ اب ہمارے تاجر12 بجے دن کو مارکیٹیں اور تجارتی ادارہ کھولتے ہیں جو رات کو12 یا ایک بجے بند کرتے ہیں۔ یوں رات کا چین و آرام بھی غارت ہوگیا۔ سڑکوں پر رات گئے بے مقصد رش رہتا ہے۔ بجلی کا ضیاع ہوتا ہے۔ ان سے بڑھ کر ان لوگوں کی اپنی اور ان کے پاس کام کرنے والے ورکروں کی سوشل زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ پہلے شام کا وقت گھریلو کام کاج رشتہ داروں سے ملاقات یا گھر والوں کے ساتھ بسر ہوتا تھا۔ اب یہ نہیں رہا۔ جب باپ گھر آ تا ہے بچے سو رہے ہوتے ہیں۔ جب بچے سکول کالج جاتے ہیں تب ابا جی خرانٹے لے رہے ہوتے ہیں۔ ہم سے تو جانور اچھے جو کم از کم وقت پہ سوتے اور اور وقت پر جاگتے ہیں۔ اس لئے حکومت اپنی رٹ طاقت سے منوائے اور رات 9 بجے ہر صورت تجارتی کاروباری مراکز بند کرائے۔ یوں کافی بجلی بچائی جا سکتی ہے۔
٭٭……٭٭
دعا حلیم کے پی پی ارکان کو بکریاں چپ ہو جائیں کہنے پر سندھ اسمبلی میں ہنگامہ
سندھ اسمبلی میں گزشتہ روز جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔ اس سے قبل بھی سندھ اسمبلی میں خواتین کے درمیان ہاتھا پائی اور بدکلامی کا جو دنگل ہوا تھا‘ وہ بھی ابھی تک ذہنوں پر نقش ہے۔ اب گزشتہ روز ہاتھا پائی تو نہ ہوئی مگر ایک بار پھر خواتین ارکان اسمبلی نے ایک دوسرے کو جس طرح مخاطب کیا جن الفاظ کا استعمال کیا۔ وہ سن کر تو واقعی شرم آتی ہے۔ ہم سب انسان ہیں۔ اشرف المخلوقات ہیں مگر ایک دوسرے کو جانور قرار دینے میں نجانے کیوں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں جس فخر پر ناز ہے‘ اس کی اگر ف اڑا دی جائے تو پیچھے خر بچتا ہے تو سوچ لیں دوسرے کی تذلیل کرکے فخر محسوس کرنے والے خودکیا بن جاتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ روز پی ٹی آئی کی دعا حلیم نے جس طرح اپنی تقریر میںجارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے مرد ارکان اسمبلی کو لتاڑا‘ وہ بہت ہی نرم الفاظ میں نامناسب اور غیرپارلیمانی کہلائے گا۔ اس کے جواب میں جب پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان نے شور کیا اور جواب دینے کی کوشش کی تو دعا حلیم نے انہیں بکریاں قرار دیتے ہوئے چپ کرانے کا جملہ کسا جو بہت ہی نازیبا ہے۔ شکر ہے جواب میں پیپلزپارٹی کی خواتین نے کوئی ایسی ویسی مثال نہیں دی۔ ویسے مروجہ استعمال میں ’’بکری‘‘ تو اسے کہتے ہیں جو میدان چھوڑ کر بھاگ جائے۔ سندھ اسمبلی میں تو کوئی بھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگا اس لئے انہیں بکری نہیں کہا جا سکتا۔ بہتر ہے کہ اسمبلی میں کم ازکم غیرپارلیمانی زبان اور بیان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ پہلے ہی کون سا لوگ ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں نیک خیالات رکھتے ہیں کہ انہیں مزید بدظن کیا جائے۔
٭٭٭……٭٭٭