وفاقی وزراء کا آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عملدرآمد کا عندیہ
وفاقی وزیر خرانہ مفتاح اسماعیل نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) پروگرام ایک آدھ دن میں بحال ہو جائیگا۔ آئی ایم ایف کو ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور 12 لاکھ آمدن پر انکم ٹیکس چھوٹ دینے پر اعتراض نہیں‘ ہماری طرف سے دی گئی 12 لاکھ سالانہ آمدنی پر انکم ٹیکس چھوٹ برقرار رہے گی۔ گزشتہ روز سینیٹ فنانس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو اور اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ امیروں پر ٹیکس لگے گا اور غریب عوام کو ریلیف ملے گا۔ انکے بقول وزیراعظم شہبازشریف ٹیکس بڑھانے پر ناراض ہو جاتے ہیں اور وہ بار بار ٹیکس کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ میں وزیراعظم سے کہتا ہوں کہ اگر ٹیکس نہ بڑھائیں تو آمدنی کیسے بڑھے گی۔ اسی طرح وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ ایک آدھ روز میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ طے پا جائیگا۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور آخر میں اس پر عمل نہ کیا جبکہ ہم نے پی ٹی آئی حکومت کے کئے گئے معاہدے پر ہی عملدرآمد کیا ہے اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی گئی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی ایم ایف وہ آکاس بیل ہے جس نے گزشتہ چھ دہائیوں سے ملک کی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور ہماری کوئی بھی حکومت چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر نہیں نکل پا رہی۔ چونکہ آئی ایم ایف پر امریکی غلبہ ہے اس لئے وہ امریکی مفادات کو پیش نظر رکھتے اور اسکی ڈکٹیشن پر عمل کرتے ہوئے ہمارے لئے ایسی شرائط وضع کرتا ہے جن پر عملدرآمد ملک کو عملاً اس عالمی مالیاتی ادارے کی غلامی میں دینے کے مترادف ہوتا ہے جبکہ ان شرائط پر عمل نہ کرکے آئی ایم ایف کا نادہندہ ہونے کی صورت میں پوری معیشت کی تباہی کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے درحقیقت ملک کی آزادی اور خودمختاری کو اس ادارے کے پاس گروی رکھنے کے مترادف ہوتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کو صرف اپنے ادا شدہ قرضوں اور ان قرضوں پر سود کی وصولی سے سروکار ہوتا ہے چاہے اس عمل میں متعلقہ مقروض ملک کے عوام کے تن پر کوئی کپڑا تک نہ رہے اور چاہے اس ملک کی معیشت کا انجرپنجر ہل جائے۔ اسی تناظر میں بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا مستحسن اقتصادی پالیسی کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا۔
ہمارا آئی ایم ایف سے قرض لینے کا سلسلہ ایوب خان کے دور حکومت سے شروع ہوا تھا اور ہم ابھی تک اس پوزیشن پر نہیں آپائے کہ اس عالمی مالیاتی ادارے کو اصل زر واپس لوٹانے کے قابل ہو سکیں۔ہم پر اصل زر سے چار گنا زیادہ سود واجب الادا ہے اور مالیاتی ادارے اپنے قرض پر پہلے سود ہی وصول کرتے ہیں جس کے بعد اصل زر کی واپسی کی نوبت آتی ہے۔ چنانچہ ہم آئی ایم ایف کے قرض پر چڑھنے والے ہزاروں ارب ڈالر کے سود سے خلاصی پائیں گے تو قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے خودانحصاری کا سوچیں گے۔ فی الحال تو ہمیں آئی ایم ایف کے سود کی ادائیگی کیلئے اس سے مزید قرض لینے کی مجبوری لاحق ہوتی ہے اور ہماری اس مجبوری کو بھانپ کر ہی آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کیلئے ہم پر سخت سے سخت شرائط عائد کرتا ہے جن پر عمل کرتے کرتے ہم نے ملک کی معیشت کو تو کیا مستحکم بنانا‘ عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا ہے۔
اپنے سابق اپوزیشن کے دور میں عمران خان اس وقت کے حکمرانوں کو ملکی معیشت کو جکڑنے والے آئی ایم ایف کے قرضوں کی بنیاد پر ہی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اقتدار میں آنے کی صورت میں ملک کو ان قرضوں سے خلاصی دلانے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بار جوش خطابت میں یہ بھی کہہ دیا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر خودکشی کو ترجیح دینگے مگر 2018ء کے انتخابات نے انکے اقتدار کی راہ ہموار کی اور وفاق اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تشکیل پا گئیں تو اپنے نعروں اور دعوئوں کے برعکس ملکی معیشت کو سنبھالنے کے نام پر پی ٹی آئی حکومت نے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے سب سے پہلے آئی ایم ایف سے ہی رجوع کیا جس کے ساتھ وزیر خزانہ اسدعمر کا سلسلۂ جنبانی شروع ہوا تو بیل منڈھے نہ چڑھی اور آئی ایم ایف نے اپنی شرائط پر قرض دینے کیلئے ہمارے وزیر خزانہ کو تبدیل کراکے اپنے آدمی حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا قلمدان دلوایا جنہوں نے آئی ایم ایف کی خواہشات کے عین مطابق اسکی ہر شرط کے آگے پاکستان کو جھکا کر اس سے چھ ارب ڈالر کی قسط وار ادائیگی کا معاہدہ طے کرالیا۔ اس پیکیج کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کی جو شرائط قبول کیں اسکے باعث ہی حکومت نے پہلے ضمنی میزانیوں کے ذریعے ٹیکسوں کی شرح بڑھانا اور نئے ٹیکس لگانا شروع کئے اور ساتھ ہی ساتھ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ ادویات اور دوسری روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بھی بتدریج بڑھائے جاتے رہے جبکہ قومی میزانیوں میں عوام پر مزید ٹیکس لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیاگیا چنانچہ مجبور و بے بس عوام ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ اٹھائے اٹھائے راندۂ درگاہ ہوگئے جن میں مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق زندہ رہنے کی سکت بھی نہ رہی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ آئی ایم ایف نے دو ارب ڈالر پر مبنی اپنی ہر قسط کی ادائیگی سے پہلے پاکستان پر نئی شرائط مسلط کیں جو پوری نہ ہونے کی صورت میں قسط روکنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی کا خمیازہ ہی بھگتنا پڑا جس کیخلاف بڑھتے عوامی اضطراب کو بھانپ کر اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہو کر عدم اعتماد کی تحریک لانے کا موقع ملا جسے کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھ کر پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد روک دیا اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ منجمد کردیئے تاکہ آئی ایم ایف کی جانب سے قسط روکنے کی صورت میں سارا ملبہ آنیوالے حکمرانوں پر پڑے۔
یقیناً اپوزیشن قائدین کو بھی اس حقیقت کا ادراک تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرکے ان سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سنبھالی نہیں جائیگی۔ اسکے باوجود انہوں نے وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری کے بعد نئے انتخابات کی طرف جانے کے بجائے خود حکومت سنبھالنے کا چیلنج قبول کیا ہے تو اب موجودہ حکومت ہی کا درد سر ہے کہ وہ بیک وقت آئی ایم ایف اور عوام کو کیسے مطمئن کرتی ہے۔ سردست تو حکومت نے آئی ایم ایف کی ناراضگی دور کرنے کیلئے اسکے ساتھ سابق حکومت کی جانب سے کئے گئے معاہدے کی ہر شرط پر عملدرآمد کا قطعی غیرمقبول فیصلہ کیا ہے جس کے باعث عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے بڑھتے مسائل کی اب کوئی انتہا ہی نہیں رہی اور عوام موجودہ حکومت سے خلاصی کے بھی راستے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ وفاقی وزراء مفتاح اسماعیل اور خواجہ آصف نے آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عملدرآمد کا عندیہ دیکر یقیناً عوام کے اضطراب میں مزید اضافہ کیا ہے جن کیلئے آبرومندی کے ساتھ زندگی گزارنے کے تمام راستے مسدود ہو رہے ہیں۔ اس تناظر میں حکومت کو اپنی اولین ترجیح کے طور پر عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے اقدامات اٹھانا ہونگے اور ان پر پڑنے والا مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کی جانب منتقل کرنا ہوگا۔ یہ کڑوا گھونٹ پیئے بغیر عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے نہ حکومت اور سسٹم کے استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔